مندرجات کا رخ کریں

قصیدہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

“لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں”۔
اردو ادب میں قصیدہ فارسی سے داخل ہوئے۔ اردو میں میرزا رفیع سودا اور ابراہیم ذوق جیسے شعرا نے قصیدے کی صنف کو اعلی مقام تک پہنچایا۔ قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔

قصیدے کے اجزائے ترکیبی

اجزاء

[ترمیم]

تشبیب

[ترمیم]

قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب کہلاتا ہے۔ اس میں شاعر عشق و عاشقی کی باتیں، شباب جوانی کے قصے اور فضا کی رنگینی کا حال بیان کرتا ہے۔

گریز

[ترمیم]

تشبیب کے بعد قصیدے میں گریز کی منزل آتی ہے گریز کی یہ خوبی قرار دی گئی ہے کہ تشبیب کے بعد ممدوح کا ذکر نہایت ہی فطری اور موزوں طریقے سے کیا جائے یعنی بیان میں ایک فطری مناسبت، تسلسل اور ربط قائم رہے۔

مدح

[ترمیم]

قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے۔ اور اسی پر قصیدے کی بنیا د ہوتی ہے۔ عربی قصائد میں مدح حقیقت اور واقعیت سے بھر پور ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب شاعر کو کسی نے اپنی مدح پر مجبور کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” تم کچھ کرکے دکھائو تو میں تمھاری مدح کروں۔“ مگر فارسی اور اردو میں مدح کا معیار خیال آفرینی اور مبالغہ ہوتا ہے۔ یہاں ممدوح کی ذات میں مثالی خصوصیات فرض کرکے بیان کی جاتی ہیں۔ قصیدوں میں مدح کا حصہ اکثر تکرار مضامین کی وجہ سے بے لطف ہو جاتا ہے۔

حسن طلب

[ترمیم]

اس حصے میں شاعر اپنا مقصد بیان کرتا ہے۔ اس کے لیے شاعر کو ایسی سحر بیانی یا فسوں کاری سے کام لینا پڑتا یے کہ ممدوح کی طبیعت پر گراں نہ گذرے بلکہ اگر ممدوح نجیل بھی ہے تو کریم بن کر شاعر کا دامن گوہر مقصود سے بھر دے...

دعائیہ

[ترمیم]

قصیدے کا آخری حصہ دُعائیہ ہوتا ہے اس میں ممدوح کو بلند اقبال اور درازی عمر کی دعا دی جاتی ہے۔ بعض اوقات شاعر اپنی اچھی یا بری حالت ظاہر کرتا ہے۔ دعا کے ذریعے قصیدہ گو اپنا صلا بھی طلب کرتا ہے۔ دعا قصیدے میں نازک مقام ہے اور قصیدے کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر دعا پر ہی ہوتا ہے اور قصیدے کے مقطع میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے۔