مندرجات کا رخ کریں

مجاز لکھنوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مجاز لکھنوی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 19 اکتوبر 1911ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بارہ بنکی ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 دسمبر 1955ء (44 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (19 اکتوبر 1911–14 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–5 دسمبر 1955)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
سینٹ جانس کالج، آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مجازؔ 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ان کی تاریخ وفات 5 دسمبر 1955 ہے۔ان کا حقیقی نام اسرارالحق اور مجازؔ تخلص اختیار کیا۔

نام اور پہچان میں لکھنویت کی چھاپ

[ترمیم]

تعلیم کے لیے مجازؔ لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ ہوا کہ مجازؔ نے اپنے تخلص میں لکھنؤ جوڑ لیا اور مجازؔ لکھنوی کے نام سے جانے گئے۔

تعلیم

[ترمیم]

مجازؔ نے 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا۔

ملازمت

[ترمیم]

1936میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ’آواز‘ کے پہلے مدیر مجازؔ ہی تھے۔ انھوں نے کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا تھا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوئے تھے۔

شعروشاعری

[ترمیم]

مجازؔ کی مختصر زندگی کا خاصہ ان کی شاعری تھی۔ ان کی سب سے بہترین نظم’آوارہ‘ ہے، جس کے چند بند 1953میں بنی فلم ’ٹھوکر‘ میں گلوکار طلعت محمود کی آواز میں کافی مشہور ہوئے:
’’اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں‘‘
یہ شہر کی رات میں ناشادو ناکارہ پھروں
جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں

مجازؔ نے بچوں کے لیے بھی شعر لکھے۔ ان کی مشہور نظم ’ریل‘ کے کچھ اشعار اس طرح ہیں: پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
جیسے موجوں کا ترنم جیسے جل پریوں کے گیت
ایک اک لے میں ہزاروں زمزمے گاتی ہوئی
جستجو میں منزل مقصود کی دیوانہ وار
اپنا سردھنتی، فضا میں بال بکھراتی ہوئی
الغرض دوڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعر آتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی[2]

ادبی رکنیتیں

[ترمیم]

مجازؔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن تھے۔ مجلس ادارت "نیا اَدب" لکھنؤ اجرا 1939ء کے بھی رکن تھے۔[3]

انتقال

[ترمیم]

3دسمبر 1955کو لکھنؤ میں مجازؔ ایک مشاعرے میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے دو دن بعد یعنی 5 دسمبر 1955کو وہ انتقال کر گئے تھے۔

ڈاک ٹکٹ

[ترمیم]

2008میں ایک ڈاک ٹکٹ حکومت ِ ہند کی جانب سے مجاز کی یاد میں جاری ہوا تھا۔[2]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/136522963 — اخذ شدہ بتاریخ: 8 مئی 2020
  2. ^ ا ب "مجازؔ لکھنوی کے یوم پیدائش پر خصوصی پیشکش : چوتھی دنیا :"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2014 
  3. Bio-bibliography.com - Authors