رفیع رضا
[1]#رجوع_مکرر رفیع رضآ، تاریخ پیدائش 9 اکتوبر 1962, ضلع جھنگ ،
- رفیع رضا کی شاعری پر مضامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔www.silsla.com سلسلہ ڈاٹ کوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہان ِ حیرت کا مسافر ۔ رفیع رضا عرفان ستار۔۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ میں نے اب سے پہلے رفیع رضا کو پڑھنے کی طرح نہیں پڑھا تھا۔ اسی طرح پڑھا تھا جیسے فیس بک پر سب پڑھتے ہیں۔ ایک عرصے تک تو رفیع میری فرینڈز لسٹ میں بھی شامل نہیں تھا۔ مگر اس دوران میں وہ اپنی غزلوں کے لنک مجھے ای میل کرتا تھا اور میں ایک سرسری پڑھت کے بعد جو مناسب سمجھتا تھا، وہ رائے دے دیتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ مگر اس دوران بھی بحیثیت شاعر، میرے دل میں رفیع کی قدر و قیمت موجود تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے رویّے کی شدّت دوسروں کی طرح مجھے بھی پریشان کرتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شخص دل جمعی سے شاعری کرنے کی بجائے یہاں وہاں جھگڑے کیوں مولتا پھرتا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے اس کا؟ پاگل ہے؟ ذہنی مرض میں مبتلا ہے؟ خود پسند ہے؟ حاسد ہے؟ کیا ہے آخر؟ اس مسئلے کو زیادہ گہمبیر میں نے یوں بنا لیا کہ کینیڈا آنے کے بعد رفیع سے دو ایک ملاقاتیں ہوگئیں۔ یہ کیا؟ یہ تو کوئی اور ہی شخص ہے۔ پُرخلوص۔ گرم جوش۔ سلیقے کی گفتگو کرنے والا۔ تو پھر وہ کون ہے جو فیس بک پر آگ اگلتا پھرتا ہے؟ یہ مسئلہ کبھی میرے لیے سلجھنے والا نہ تھا اگر بھائی فرحت عباس شاہ نے مجھ سے رفیع کی شاعری پر کچھ لکھنے کے لیے نہ کہا ہوتا۔ جب یہ ہوا تب بھی میرا ابتدائی ردّ ِ عمل کوئی بہت مثبت نہ تھا، اگرچہ میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔ ذہن میں یہ آیا کہ کیا مصیبت ہے۔ کس نے میرا نام سجھا دیا شاہ جی کو؟ خواہ مخواہ رفیع کی شاعری پر لکھ کر اس کے مخالفین کی باتیں سننے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر سوچا چلو خیر ہے۔ کاریگری دکھا دوں گا۔ صاحب ِ اسلوب، جدید فکر کا حامل، تازہ کار، اور اس قسم کی چند باتیں پھیلا کر لکھ دوں گا، جس میں کوئی فقرہ قابل ِ گرفت نہ ہوگا۔ سوال اٹھانے والوں سے کہہ دوں گا کہ یار۔ دنیا داری بھی کوئی چیز ہے۔ اگر نہ لکھتا تو لوگ کہتے کہ میں رفیع سے جلتا ہوں۔ نمبر ون کی لایعنی بحث بھی تو چھڑی ہوئی ہے۔ نہ لکھتا تو لوگ کہتے رفیع کے نمبر ون شاعر ڈکلیئر ہوجانے سے ڈرتا ہوں، اس لیے لکھ دیا۔ خیر ہے یار۔ دو ایک دن میں تحریر اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لوگوں کی یاداشت بڑی مختصر مدت کی ہوتی ہے۔ کس کو یاد رہے گا؟ خیر اسی ذہنی کیفیت میں ’’ستارہ لکیر چھوڑ گیا’’ کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلی بار سرسری نظر دوڑائی۔ وہی تاثر ابھرا کہ جو ہہلے سے تھا۔ اچھا شاعر ہے۔ مگر اتنا بھی اچھا نہیں۔ اخاہ۔ یہ لفظ کیسے استعمال کیا ہے؟ اور یہ ترکیب؟ یار کیسی پتھریلی زمین ہے۔ شدت ہے، مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلو کل بیٹھ کر ایک آدھ گھنٹے میں نمٹا دوں گا مضمون۔ خیال سے لکھنا ہوگا۔ کوئی فقرہ سخت نہ ہو۔ کوئی بات حتمی نہ ہو۔ بس بین بین چلتا ہوا سلامتی سے گزرجاوٗں گا۔ اگلے دن پھر کتاب کھولی اور ذہن کو ایک شعر نے زوردار جھٹکا دیا۔ سو پھیلنے کی اسی حد پہ علم جاکے رکا میں کہہ رہا تھا جہاں یہ سمٹنے والا ہے یہ کیا ہے؟ ایکسپینڈنگ یونیورس تھیوری؟ مگر اس کا غزل میں کیا کام؟ اور پھر شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ یہ جہاں سمٹنے والا ہے؟ گویا سائنس کا یہ ماننا کہ کائنات مسلسل پھیلنے کے عمل سے گزر رہی ہے، اور یہ عمل کسی وقت پلٹے گا، اور کائنات ایک مرکز کی جانب پھر سمٹے گی اور نتیجہ؟ وہ سب ٹھیک مگر یہ تھیوری غزل میں کیا کررہی ہے؟ کمال ہے۔ اور دیکہیں؟ چلو چلو۔۔۔آگے بڑھو۔ یہ جو موجود ہے، اسی میں کہیں اک خلا ہے، تجہے نہیں معلوم پیریلل یونیورس تھیوری؟ نا ممکن۔ یہ تکا ہے یار۔ شاعر کو کہاں معلوم ہوگا۔ یونہی لکھ دیا اور میں اس کو اپنے حساب سے توجیہ دینے لگا۔ پرے ہٹاوٗ یار۔ غزل کو غزل کی طرح پڑھو۔ نظر آتا ہے سر پر، اور نہیں ہے رضا اس آسماں کا کیا کیا جائے؟ نہیں یار یہ خالص سائنس ہے۔ یہ تکا نہیں ہوسکتا۔ بالکل صاف، واضح شعر ہے۔ آسماں کا کوئی وجود نہیں۔ بس خلا ہے۔ اتھاہ، لاانت خلا۔ یہ آسمان صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ شخص کسی اور مقام سے کلام کررہا ہے۔ ہوشیار باش۔ ذرا خیال سے۔ معاملہ نازک ہے۔ دھڑکتی رہتی ہے کوئی گھڑی مرے دل میں یہ وقت میرے ہی چکر سے ہوکے جاتا ہے وجود سے باہر وقت کی کوئی حقیقت نہیں؟ ٹائم اینڈ اسپیس؟ کیا کررہا ہے یہ شخص؟ یہ تو سائنس سے زیادہ مابعدالطبیعات کا موضوع ہے۔ یہ کیا جہمیلا ہے یار؟ ستارے ہیں کہ دروازے کھلے ہیں آسماں کے مجھے اب دربدر جانا ضروری ہوگیا ہے بلیک ہولز؟ اینٹری پوائنٹ ٹو دی ادر ڈائمنشن؟ نہیں یار ستارے لکھا ہے۔ تو بلیک ہول سے پہلے کیا تھا؟ جدھر سے آرہا ہے وقت کا خاموش دھارا رضا میرا ادھر جانا ضروری ہوگیا ہے نہیں یہ محض اتفاق نہیں۔ ایک ہی غزل میں دو ایسے اشعار؟ یہ شخص جانتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ نہیں ہے۔ یہ آگہی کا سفر ہے۔ اس کی آنکھ کو کوئی ایسی جھری مل گئی ہے جس سے یہ ممنوعہ علاقے میں جھانک رہا ہے۔ پھسل گئیں مری آنکہیں پھر آسماں کی طرف میں اس کے بعد وہیں پر خرام کرنے لگا اس کے لیے آسمان سر تنی ایک چادر نہیں جس میں ستارے ٹنگے ہیں۔ اس کے بزدیک آسماں ایک لامحدود حقیقت ہے جہاں سے جہان ِ دگر کی راہ داریاں گزرتی ہیں۔ اس کے پاوٗں تو زمین پر ہیں، مگر اس کا سفر اس دوسرے جہان کا ہے، جہاں سے خبریں لا لاکر یہ لوگوں کو سنا رہا ہے اور جب وہ نہیں سمجھتے تو یہ جھلاتا۔ الجھتا ہے۔ چیختا ہے۔ سب سے لڑتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب سے محبت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب اس کے جہان ِ حیرت کے سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔ جہان ِ حیرت؟ حیرت؟ کیا یہ کلید ہے اس کی شاعری کا قفل کھولنے کی؟ چلو پھر چلو کتاب کے پہلے صفحے پر۔ حیرت۔۔۔۔۔ مرے لیے گُل ِ حیرت کھلا ہوا رکھنا رضا ابھی مرے پاس آنکھ کا پرندہ ہے منظر سے میں کہتا ہوں کہ حیرت مجھے دے دے منظر مجھے کہتا ہے نظر کاٹ کے دے دوں میری جراٗت کہ میں حیرت کی کہانی لکھوں میں الف کی ابھی تفسیر نہیں کرسکتا اب تک رکا ہوا اسی حیرت کدے میں ہے لگتا ہے پھر خمار میں آیا نہیں ہے تُو نئی حیرت تھی اس لیے سب لوگ رک گئے، اور میں بے خطر گھوما ہاں ہاں ہاں۔ حیرت۔ اور نئی حیرت۔ سائنس کی تازہ تر دریافتوں سے وا ہونے والی دنیا کی حیرت۔ ایک ایسا طلسم کدہ جس میں ایک بار جھانکنے کے بعد اصل کے سامنے آئینہ بے حیثیت ٹھہرتا ہے۔ یا حیرت۔ کوئی منظر خرید سکتا ہے مجھ کو حیرت کے ایک دھیلے میں یہ ہے مسئلہ اس پاگل کا؟ یہ اگہی سے دامن چاک کرکے گھومتا ہے؟ ایسی چاک دامانی کی بخیہ گری جنوں کے بس میں نہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں۔ آگہی کی طلب مزید کھوج ہے۔ اور یہ لگا رہتا ہے اسی کھوج میں۔ کیا واقعی؟ اور دیکہیں؟ شاید اسے کہیں کوئی حیرت دبوچ لے حدّ ِ نظر سے آگے اچھالی ہوئی ہے آنکھ حیرت مجھے لگتی ہے کوئی آٹھویں رنگت یہ رنگ مری آنکھ میں بھرنے کے لیے ہے گویا یہ سب اتفاق نہیں؟ یہ شخص اٹھویں رنگ کو منظر میں بھرنے اور آٹھواں سُر راگ میں لگانے کی دھن میں تصویر بناتا اور گیت سناتا ہے؟ حیرت کسی صورت مجھے چلنے نہیں دیتی اور اگلا نظارا مجھے رکنے نہیں دیتا یائے ہائے۔ کیسی کشکمش لکھی ہے اس شخص نے۔ ایک طرف حاضر منظر کی گہرائی ہے جو مزید رکنے کا تقاضا کررہی ہے، اور دوسری جانب آگہی کا یہ اعلان ہے کہ آگے چل۔ آگے اور بھی بہت کچھ ہے۔ کتنی مختلف ہے یہ شاعری معلوم کے بیان سے؟ نامعلوم کی پراسراریت، رمزیت، اور ’’امکانیت’’ ہی اور ہے۔ اکیسویں صدی جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، دو اعتبار سے انسانی علم کے مروّجہ قوانین اور ٓاصولوں کی دھجیّاں بکھیر رہی ہے۔ ایک کوانٹم فزکس میں ہونے والی پیش رفت، اور ایک پیراسائکولوجی کا پھیلتا ہوا منظرنامہ۔ یہ دوعلوم اس معلوم دنیا کو ایک یکسر نئی شکل دے رہے ہیں، مگر اس کے چھینٹے اردو غزل میں؟ حیرت ہے رقص میں تجہے کیا دیکھنے کے بعد اے ذرّے کی دہمال، تجہے کیا مثال دوں؟ یہ وہ ذرّہ نہیں جو اس خاک کا ہوتا ہے جو عاشق کوچہٗ ِ محبوب میں اڑاتا پھرتا ہے۔ یہ اس ’’الیکٹرون’’ کا رقص ہے جو ساری وجودی حقیقتوں کی بنیاد میں جلوہ فرما ہے۔ آنکہیں کھلنے لگی ہیں اب۔ اشعار مزا بھی خوب دے رہے ہیں۔ مری نگاہ تو حیرت سے بات کرتی ہے سو اس کو روکنا میری زباں پکڑنا ہے میں ایک شرط پہ آوٗں گا بزم ِ یاراں میں مرے لیے کسی حیرت کا اہتمام کرو سن لو یارو۔ سمجھ لو کہ رفیع کیوں تمہاری غزلوں کی تعریفوں کے پل نہیں باندھتا؟ اسے حیرت مہیّا کرو۔ پھر دیکھو یہ کیسے ایک چھوٹے بچے کی طرح ہمکتا اور خوش ہوتا ہے اور تمہیں گلے لگاتا ہے۔ یہ جو ہر سمت میں لکھی ہوئی اک نظم سی ہے اس کے حیرت بھرے اشعار سے باندھا ہوا ہوں ایک منظر ہے کہ اوجھل ہے مری آنکھوں سے ایک حیرت ہے کہ میں جس سے لگا پھرتا ہوں بجھا ہوا کوئی منظر مجھے قبول نہیں میں اپنی آنکھ سے حیرت نکال پھینکوں گا عطا ہوا ہے مجھے حیرتوں کا شمس ِ منیر مری نگاہ نئے منظروں سے روشن ہے اسے تو کوئی بھی حیرت لگا کے لے جائے میں اپنی آنکھ کی بے رہ روی سے ڈرتا ہوں کیسی بے راہ روی ہے جو درست راستے پر لگا دیتی ہے؟ کیسا جہان ِ حیرت وا ہوتا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ۔ گم کدے میں حیرتوں کا سلسلہ رکھا گیا مجھ کو تنہا چھوڑ کر بھی رابطہ رکھا گیا حیرتی ہوں سو مری کون ضمانت دے گا؟ کوئی منظر بھی مجھے وجد میں لاسکتا ہے جو شک کا ذائقہ آیا ہے آب ِ زمزم میں تو کیا یقین کا زمزم نتھارنا پڑے گا؟ ساری حیرت تو مری آنکھ اٹھا لائی ہے میرے دیکہے ہوئے کو یار کہاں دیکھتے ہیں؟ یہ ہے گلہ۔ یہ ہے مسئلہ۔ حیرت یا اخی حیرت۔ نازل ہوا ہے آنکھ پہ منظر کے سامنے حیرت نیا فرشتہ ہے اس دین کے لیے کیا سمجھے؟ نشانیاں۔ عقل والوں کے لیے۔ عقل والوں کا پہلا ردِّ عمل؟ حیرت۔ All knowledge starts with curiosity! Imagination is more important than knowldge. (Einstein) کن لوگوں کا ہمسفر ہے یہ شخص؟ دیکھو۔ سمجھو۔ حصار پر گلِ خوبی کے گرد میرا ہے جسے میں دیدہٗ ِ حیران سے بناتا ہوں تو اس حیرت کے سفر نے کیا دیا رفیع رضا کو؟ ایسے نئے اشعار کہ اب آپ دیدہٗ ِ حیرت وا کرکے پڑہیں تو لطف آجائے۔ چلیں میرے ساتھ اس جہان ِ حیرت کے سفر پر۔ اب کسی شعر کی وضاحت میں نہیں کروں گا۔ ہر شعر پر ذرا رکیں اور سوچیں۔ مابعدالطبیعاتی تناظر کو ذہن میں رکہیں اور میرے ساتھ ورطہ ٗ ِ حیرت میں پڑ جائیں اور رفیع رضا کے لیے دعا کریں۔ اس کے سوالات پر غور کریں کہ سوچنے والے ذہن کا کام محض جوابات سے لطف لینا نہیں، سوال اٹھانا بھی ہے۔ بلکہ سوال اٹھانا ہی ہے۔ یہ بھی دیکھئے گا کہ رفیع مضامین کو کیسے برتتا ہے۔ کیسے ایک مکمل تعقل کے موضوع میں کیفیت پیدا کرتا ہے۔ کیسے اس کا لفظیاتی نظام موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ تمام باتیں الگ الگ مضمون کی متقاضی ہیں، مگر سر ِ دست صرف ان خوبیوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ یہ پھڑپھڑاتا ہوا شعلہ کھول دے کوئی بندھا چراغ سے کیوں آنکھ کا پرندہ ہے؟ کہیں کوئی خلا میرے نہ ہونے سے بھی ہوگا جسے اب مجھ سے بھر جانا ضروری ہوگیا ہے یہ بتا سکتا ہوں وہ آگ مقدّس ہے مگر اپنے جلنے کی میں تشہیر نہیں کرسکتا آسماں سے بھی یقیں اٹھتا چلا جاتا ہے ایسا ہونا تو نہیں چاہیئے، پر ایسا ہے ہر طرف آسمان کھلتا ہے میں کہیں سے فرار نہ ہو جاوٗں میرے ذرّے کو چمکنا ہے اسی نور کے ساتھ وہ مری خاک سے بچ کر نہیں جانے والا میں اگر زندہ رہوں گا تو چلا جاوٗں گا میں یہاں سے کبھی مر کر نہیں جانے والا نئے ہیں لوگ، سوالات بھی نئے لائے اٹھا یہاں سے پرانا جواب اور نکل تجہے پتہ ہے بگولے کی آنکھ میں تو ہے سو اپنے گرد مرا انہماک دیکھنے آ میں پکارا، کوئی نہیں بولا پھر مرا خامشی سے دل نہ بھرا کہیں مثال نہیں ہے کہیں پرندوں میں کسی الاوٗ کے اتنا قریب جانے کی میں مر رہا ہوں کسی اور زندگی کے لیے نہیں ہے کوئی ضرورت مجھے بچانے کی بچے کچہے یہی منظرسمیٹ آنکھوں میں کوئی ترے لیے کتنے نشان چھوڑے گا؟ کھلا یہ راز کہ وحدت میں کیا بڑائی ہے میں جب حقیر ہوا جمگھٹوں کے ہونے سے میں تجھ کو دیکھ چکا اور تجھ کو جان چکا میں تجھ کو مان چکا آئینے کے ہونے سے وہ روشنی مری بینائی لے گئی پہلے پھر اس کے بعد مرا دیکھنا مثال ہوا میں اس کے سامنے بیٹھا کہ میں جھکوں لیکن وہ شولہ رُو تو مرا احترام کرنے لگا تُو کائنات تو کیا، میرے دل پہ بات نہ کر ترے لیے یہ کہانی ذرا زیادہ ہے پہلے دیوار کی صورت تھا یہ آئینہ مجھے اب میں اِس پار سے اُس پار بھی تکنے لگا ہوں میں اپنی خاک اڑاتا ہوں آسمان تلک وگرنہ کون سرے سے سرا ملاتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کوئی کھول نہیں پایا مجھے ایسا لگتا ہے بڑے پیار سے باندھا ہوا ہوں میں پار دیکھ رہا ہوں بڑی سہولت سے اور آئینے کو یہاں سے ہٹا رہا ہے تُو؟ روک لے ایک گزرتے ہوئے لمحے کو یہیں شے کوئی جیسے پڑی ہے وہ پڑی رہنے دے یہ کیسا تعلق ہے سمجھ میں نہیں آتا کیوں بیچ میں بے انت خلا چھوڑنا پڑ جائے کہ ایک روز کھُلا رہ گیا تھا آئینہ اگر گواہ بنوں تو بیان دے دوں کیا؟ میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہوا جسم کہاں میں سیر ِ سماوات کرنے والا تھا دکھا رہے ہو مجھے آسمان کا رستہ مری اڑان کا آغاز کر رہے ہومیاں وہ آگیا ہے زیادہ قریب آنکھوں کے اسی لیے تو ذرا بھی نظر نہیں آتا جا اپنے آسمان کو خود ہی اٹھا کے پھر میں تو ہٹا رہا ہوں سہارا دماغ کا اک سرنگ آنکھ میں لگتی ہوئی پکڑی بروقت سارے قیدی تہے مری آنکھ سے جانے والے مرا بدن مجھے اک قید خانہ لگتا ہے یہاں خبرنہیں کتنا زمانہ لگتا ہے یہ کیا کیا مجھے اڑنا سکھا دیا تُو نے اب آسمان بھی مجھ کو پرانا لگتا ہے لوگ روئے بچھڑنے والوں پر اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے اڑان فرض ہوئی اب مجھے اجازت دو میں بازووٗں پہ نئے پر نکال بیٹھا ہوں پر، پرندہ، چراغ، شعلہ، آسمان، اور آنکھ اس جہان ِ حیرت کے سفر میں رفیع کا رخت ِ سفر ہے۔ یہ اس کے دوسری اقلیم میں داخل ہونے کے پاس ورڈ ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی شاعری کی تفہیم کرنے پر دوسروں کو مجبور نہیں کرسکتا۔ مگر وہ جانتا ہے یہ وہ ریگ زار ہے جس پر ’’تیاری’’ کے بغیر قدم دھرا تو پاوٗں جل جائیں گے۔ اسی لیے تو وہ کہتا ہے۔۔۔۔ میں نے سب سے کہا رکو، ٹھہرو دیکھتا ہوں میں جاکے آتش کو وہ اس پار کا منظر دیکھتا ہے اور اس پار کے لوگوں کو خبر کرتا ہے، مگر وہ لوگ نہیں سمجھتے۔ شاید سمجہیں گے بھی نہیں۔ مگر وہ اس بات سے لاپروا اپنے سفر میں مگن ہے۔ یہ اس کی اپنی دنیا ہے جس میں وہ بلا خوف و خطر گھومتا ہے، منظروں سے حیرت سمیٹتا ہے، لفظوں میں بنتا ہے، اور آگے چل پڑتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ انت سے آگے ایک سفر ہے۔۔۔۔۔ ایسا نہیں کہ اس کے یہاں کمزوریاں نہیں ہیں۔ بہت ہیں۔ مگر وہ کمزوریاں اس بزدل کی نہیں جو اپنی کمزوریوں پر کھوکھلے لفظوں کا ملمع چڑھاتا رہنا ہے۔ یہ کمزوریاں اس جراٗت مند شخص کی ہیں جو اپنے سفر کے دوران ملنےوالی صعوبتوں کو بھی انعام تصور کرتا ہے کیونکہ اس سے اسے حیرت کا خزانہ ملتا ہے۔ فنی کمزوریاں بھی ہیں، مگر وہ کس کے یہاں نہیں ہوتیں؟ اردو شاعری کو جو رفیع رضا سے مل رہا ہے وہ ایک نیا راستہ ہے جس قدم رکھنے سے پہلے وہ رخت ِ سفر بھی مہیّا کرنا ہوگا جس کے ساتھ نئی منزلوں کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ رفیع رضا بڑا شاعر نہیں۔ رفیع رضا عظیم شاعر بھی نہیں۔ مگر رفیع رضا ایک بہت اہم شاعر ہے، جو اگر اپنا سفر جاری رکہے تو ایک دن ان منزلوں تک رسائی پاسکتا ہے جو کم کم لوگوں کا نصیب ہوتی ہیں۔ یہ امکان خود میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور میں اس کامیابی پر رفیع کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ نظر انداز میں ہُوا لیکن کس قدر ظلم حرف و فن سے ہوا یہ ظلم رفیع کے نزدیک اسے نظرانداز کرنے کا ظلم نہیں، بلکہ ان لوگوں کا راستہ روکنا کا ظلم ہے جو نئی منزلوں کی دریافت میں رفیع کے ہم سفر ہوسکتے ہیں۔ ابھی بہت سی باتیں رفیع کا آئندہ سفر طے کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ سرِ دست رفیع پر ’’صوفی شاعر’’، ’’سائنسی شاعر’’ ’’با بعدالجدیدیت کا شاعر’’ وغیرہ قسم کے لیبل نہ لگائے جائیں اور اسے اپنا سفر اسی انہماک سے جاری رکھنے ریا جائے، جو اس کے لیے بڑی کامیابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی شاعری کا ایک حصہ معاشرتی برائیوں کی عکاسی اور منافقت کے خلاف آواز اٹھانے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں وہ اکثر نعرے بازی کا شکار نظر آتا ہے مگر صاحب۔ احتجاج میں نعرہ تو لگتا ہی ہے، سو یہ بھی ٹھیک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس گوشے پر کسی نہ کسی دوست نے ضرور گفتگو کی ہوگی چونکہ میں نے ابھی باقی مضامین نہیں پڑہے اس لیے یقین سے نہیں کہہ سکتا، مگر ایک مختصر تحریر میں ایک اچہے شاعر کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے، اس لیے اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ موقع اپنی علمیت جھاڑنے کا نہیں بلکہ ایک خوبصورت شاعر کےکام کو سراہنے کا ہے اس لیے میں نے زیادہ توجہ اس کی شاعری سے اچہے اشعار آپ تک پہنچانے پر دی ہے۔ مگر یہ صرف انتخاب ہے۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں اور بہت مال ہے۔ اس مضمون کا مقصد رفیع کی شاعری کے اس گوشے کا قفل کھولنے کی کوشش یا کم ازکم اس کی کنجی مہیّا کرنے کی سعی تھی۔ امید ہے کہ کچھ نہ سہی مگر یہ مضمون رفیع کی شاعری کے اس بڑے حصے کی طرف احباب کی توجّہ ضرور مبذول کرائے گا جو اس کی شاعری کی اصل ہے اور جہاں سے وہ راستہ نکلتا ہے جو اس کا اصل راستہ ہے۔ اس کی منزل کا راستہ۔ جہان ِ حیرت سے گزرتا ہوا راستہ جہان ِ نامعلوم کی طرف جاتا ہوا راستہ۔ آخر میں رفیع کا وہ مزاج اور رویّہ جو لوگوں کو گراں گزرتا ہے تو صاحبو۔ شاعری جب شاعر کے وجود سے سفر اختیار کرلیتی ہے تو اپنا ایک علیحٰدہ وجود رکھتی ہے۔ اسے اس کی شخصیت سے الگ پرکھو اور اسے اس کا جائز حق دو۔ رہی شخصیت کی بات تو یہ پڑھ لو۔۔ جیسا بھی ہوں سینے سے لگا لو مجھے یارو اب وقت ذرا کم ہی سدھرنے کے لیے ہے عرفان ستار ٹورنتو ۲۵ دسمبر ۲۰۱۰۔ NASIR ALI ناصر علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا۔ رفیع رضاسے میری پہلی ملاقات رحمانپورہ لاہور پر اسی کی دہائی کے وسط میں ہوئی۔صحت مند چہرہ ،رنگ سرخ لیکن سیاہی مائل،شفاف شفاف آنکہیں لیے یہ نوجوان مجھے بہت اچھا لگا ۔چونکہ ہم دونوں تحصیل چنیوٹ سے تہے اس لیے ایک دوسرے سے قریب ہو جانا عین فطری تھا ۔ میں کیریم بہت اچھا کھیلتا تھا۔ اس نے میرے ساتھ میچ کھیلا۔ ہار جانے پر افسوس کی بجائے اس نے اگلا میچ اور جذبے سے کھیلا۔ کیریم کا بہت اچھا کھلاڑی نہ ہونے کی وجہ سے رفیع رضادوبارہ ہار گیا لیکن بعد ازاںاسے جب بھی موقع ملتا مجھے ہرانے کی کوشش کرتا ۔ مجھے اس کا یہ انداز بہت پسند آیا کہ یہ شخص مایوس ہونے کی بجائے کوشش پر یقین رکھتا ہے۔اب جب میں اسے مختلف مواقع پرکسی نہ کسی معاملے میں الجھا ہوا دیکھتا ہوںتو مجھے ہار نہ ماننے والا نوجوان رفیع رضا یاد آجاتا ہے ۔ گاہے بگاہے ہم ایک دوسرے ملتے رہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ معاملہ کیسے کھلا کہ ہم دونوں شعر بھی کہتے ہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ رفیع رضانہ صرف اچہے اچہے شعر سناتا تھا بلکہ عروض کے علاوہ دوسرے ٹیکنیکل مسائل پربھی توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ تقریباً چار سال تک قائم رہا اور اس کے بعد اچانک رفیع رضا سے ملاقات ختم ہوگئی کیونکہ اس نے لاہور چھوڑ دیا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد میرا یہ دوست فیس بک پر کچھ یوں نمودار ہوا کہ بعد ازاں مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچ لایا۔سو جب کچھ دن پہلے جب محترم فرحت عباس شاہ صاحب نے حکم دیا کہ رفیع رضا کی شاعری پر مضمون لکھو تو مجھے نہ صرف مسرت بلکہ ذمہ داری کا احساس بھی ہوا کہ معاملہ ذاتی دوست کا ہے ۔ رفیع کی غزل پر بات کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ شاعری کی بابت اپنا نقطہ ءنظر بیان کر دوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر کا لفظ شعور سے مشتق ہے یعنی شعور کا اظہار ۔ لیکن شعر میں شعور کا اظہار ایک خاص سلیقہ بھری بنت سے کیا جاتا ہے ۔ میرے ذاتی خیال میں شعر شعور یعنی بات کا بیان ہے ۔ کچھ دوست شاعری کو صرف تخیل کا اظہارقرار دے کر محدود مضامین کی قید میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جبکہ کافی دوست شعر کو شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پانے والا فن سمجھتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ دوست جو شعر کو صرف تخیل کے اظہار قرار دیتے ہوں اس قضیے سے اختلاف کریں۔ ان دوستوں کا اختلاف سر آنکھوں پر کہ اختلاف ہی زندگی کا حسن ہے۔میں ذاتی طور پر پہلے اور تیسرے بیان سے متفق پا تا ہوں یعنی شعور کا شعری فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے اور شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پاکربات کا فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے۔ میرے نظریہ شعر کے ساتھ ساتھ اردو غزل کے سفر پر چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے ۔ یہ کہ اردو غزل کلاسیکی شعرا سے سفر کرتی ہوئی جب مولانا حالی تک پہنچی تو حالی نے اسے اسے طے شدہ استعارات و نظام علامات سے نکال کر نئے استعاراتی نظام کی جستجو پر لگا دیا ۔ بعد ازاں غزل اقبال سے ہوتی ہوئی عہدِ موجود تک پہنچی۔اس سفر کے دوران غزل بہت سے لسانی تجربات سے گزری ۔ مضامین کی سطح پر بھی بہت سے اضافے ہوئے۔ایسا بھی ہوا کہ نظم نے 1960کی دہائی میںصنف ِ غزل کی موت کا اعلان بھی کیا۔لسانی تشکیلات کے نعرے کے ساتھ نظم گو حضرات ایک تحریک بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ لیکن غزل اتنی سخت جان نکلی کہ ہر مشکل سے نبرد آزماءہوتی ہوئی رفیع رضا جیسے صاحب ِ کمال شاعرتک آپہنچی ہے۔ اس سفر کے دوران غزل مختلف اسالیب سے گزری جن میں اہم طنزیہ و مزاحیہ اسلوب مثلاً اکبر الہ آبادی،تند خوئی مثلاً یگانہ ، اعلی اقدار پر مشتمل اسلوب مثلاً علامہ اقبال،نیم رومانی اسلوب مثلاً فراق،بعد ازاں لسانی تجربات کا ایک سلسلہ بھی چلا۔غز ل میں داستانی اسلو ب کو ثروت حسین جیسے شعرا نے رواج دیا اور کچھ شعرا نے تصوف کے مضامین کی مدد سے ایک نیا اسلوب دریافت کرنے کی کوشش کی جو میرے ذاتی خیال میں ابھی پوری طرح تشکیل نہیں ہو پایا۔اسلوب کے حوالے سے میں رفیع رضا کی غزل پر آخر میںبات کروں گا۔ رفیع رضا ایسا شاعر ہے جو غیر ضروری دباوکے تجربات سے گزرا۔اس دباو کی مختلف اشکال تہیں اور ہیں۔معاشی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی بد حالی اوربعد ازاں ہجرت کا تجربہ ۔ ہجرت کے نتیجے میں بیرون ملک تہذیبی اختلافات نے اور ہی قسم کے دباو جنم دئیے جو صرف ہجرت کرنے والا شخص ہی محسوس کر سکتا ہے۔یوں رفیع رضا جیسا شاعر ان تمام تجربات اور دباو سے گزرتا اور اظہار کا وسیلہ بصورت غزل لیے ہمارے سامنے موجود ہے۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں ایک سو پچاس غزلیں موجود ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ غزلیں کتاب کی ضخامت کے باعث التوا میں ڈال دی گئی ہیں۔میں اس کتاب کی اشاعت کے سفر میں تقریباً ہر مرحلے پر موجود رہا ہوں۔اس دوران میں نے اس کتاب کا ایک ایک شعرکم از کم دو مرتبہ ضرور پڑھا۔کہیں پہلے بھی میں یہ لکھ چکا ہوں کہ رفیع رضا کی غزل نہ صرف تروتازہ لگتی ہے بلکہ یہ غزل کسی استادکی تھپکی کی جتنی پر اثراور نوجوان چہرے جیسی پر جمال ہے ۔کہیں یہ انسانی نفسیاتی تاریخ رقم کرتا نظر ٓتا ہے تو کہیںعلم الکلام کی ساری کتابوں کو شعری ٹھوکر مارتاہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ کہیں اس کی غزل انوکہے اظہار سے گزرتی ہے تو کہیں روایت کے ملبے میں مدفون لاشوں پر فاتحہ خوانی اہتمام ہوتا ہے۔ رفیع رضاکی غزل نہ صر ف دل میں کھب جاتی ہے بلکہ اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔رفیع رضا کی غزل میں غزل اور مکالمے کا ملاپ بہت دلچسپ ہے اوراس ملاپ سے یہ بھی سیکھا جا سکتا ہے کہ مصرعے کو اپنی ساخت میں سیدھا کیسے کیا جائے۔ ہر لفظ اتنا موزوں بیٹھتا ہے جیسے غزل نہ ہو گفتگو کی جا رہی ہو۔رفیع رضاکی غزل میں موجود مضامین بوسیدگی کی بو سے بالکل پاک ہوتے ہیں وہ بالکل جگالی نہیں کرتابلکہ اپنے ہونے،کرنے اور بیتی واردات سے غزل کشید کرتا ہے ۔میں کہا کرتا ہوں کہ رفیع رضا بستر پر لیٹ کر ستاروں پر کمند ڈالنے والا شاعر نہیں بلکہ اس کا عمل ہی اس کی شاعری ہے۔یعنی اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں مشتمل بر ردیف غزل کی عمارت قافیے پر نہیں ردیف کے مناسب ترین استعمال پر کھڑی ہوتی ہے ۔ حالانکہ کہ زیادہ تر شعرا دوران ِ نزول ِ غزل اور بعد ازاں غزل پر نظر ڈالتے وقت قافیے کی طرف توجہ زیادہ مبذول رکھتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ رفیع قافیہ بندی کے ساتھ ساتھ ردیف پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ رفیع رضا کی غزل نہ صرف طے شدہ معیارات پر پوری اتری ہے بلکہ مشکل ترین ردیف کو بھی اتنی سہولت اور ہنرمندی سے استعمال کرتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیںمثال کے طور پر اس کتاب کی پہلی پانچ غزلوںکی ردیفیں حاضر ہیں۔میں مجھے مل، پرندہ ہے،کاٹ کے دے دوں،سے گرے گا،لگی ہو تم۔ علاوہ ازیں رفیع رضا کی بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی زمینوں پر کاشت کرتا ہے ۔ اس کے ہاں نئی نئی زمینوں کی دریافت اور ان زمینوں میں کہی گئی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں ۔کسی شاعر کی تخلیقی صلاحیت کو جانچنا ہو تو اس کی تخلیق کردہ زمینوں سے اس کے قد کاٹھ کا با آسانی پتا چلایا جا سکتا ہے ۔ رفیع اس معیار پر نہ صرف پورا اترتا ہے بلکہ اس حوالے سے بہت اہم شاعر قرار پاتا ہے۔ آ ئیے اس کی دریافت کردہ زمینوں میں کچھ زمینوں سے لطف اندوز ہوں ۔ غزل کو یاروں نے حجرہ بنا لیا ہوا ہے ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے بس آنکھ لایا ہوں اور وہ بھی تر نہیں لایا گزرتے جا رہے ہیں دن، گزارا ہو رہا ہے۔ کچھ نہ کچھ ہونے کا یہ ڈر نہیں جانے والا۔ چاک پر ایسے میرا سر گھوما۔ اے وقت کے امام کہیں میں نہ چل بسوں۔ دن کے اجلے سفید تن سے ہوا۔ رفیع رضا کے ہاں اتنی زیادہ نئی زمینیں ہیں کہ مجھے مشکل ہو رہی ہے کہ کس کس کا ذکر کروں۔ اردو غزل احسان فرموش نہیں ۔ جس شاعر نے اردو غزل کے ساتھ پوری طرح جڑ کر اس کی خدمت کی ،غزل نے اسے یاد رکھا ۔ سواس حوالے سے رفیع رضا کا نام اردو غزل کی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا کہ اس نے نئی نئی زمینوں کی دریافت میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ رفیع رضا کا ایک اور اہم کام یہ ہے کہ اس نے روزمرہ زندگی کے مکالماتی انداز کو غزل کی زبان بنا دیا ہے ۔ اس کا یہ مکالماتی اسلوب اس دور کی ضرورت بھی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں فارسی کو سکولوں سے تقریباً خارج کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے مستعمل زبان کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان کتابی اور شعری اردو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے رفیع رضا کا مکالماتی انداز اور روزمرہ کی زبان میں معیاری اور بہترین غزل بہت اہم کام ہے ۔ بہت سے شعرا محدود اور مخصوص لفظیات میں مبتلا ہونے کے باعث عام مستعمل زبان سے شعر کشید کرنے سے قا صر رہتے ہیں۔ شعرا کی اس وجہ سے نوجوان نسل شعر سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں رفیع رضاکی غزل اردو زبان کے لیے تحفہ ہے۔ اردو شاعری میں اضافتوں کے استعمال پر بہت سی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ اضافت اظہار کی سہولت دیتی ہے لیکن ساتھ ساتھ زبان کو بوجھل بھی بنا دیتی ہے ۔ بہت سے شعرا تو ایک سیدھا مصرعہ نہیں کہہ سکتے۔بعض اوقات تو اردو کی بجائے جناتی زبان بن جاتی ہے۔شعر کے ایک مصرعے میں دو اضافت فی مصرعہ کا حساب لگائیں تو پانچ اشعار کی غزل میں بیس عدد اضافیتں موجود ہوتی ہیں ۔ رفیع رضااس معاملے میں بہت سلجھا ہوا رویہ رکھتاہے۔ عام طور پر اس کی غزل اضافت سے پاک ہوتی ہے ۔اگر کہیں ضروری ہو تو اضافت اتنی سہل ہو کر آتی ہے کہ ذرا بھی بوجھل محسوس نہیں ہوتی۔اس کے ہاں آسان لیکن تازہ اضافت بھی موجود ہے لیکن مقدار میں بہت کم کیونکہ یہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ رفیع رضااردگرد کی زندگی اور انسانی تعلقات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے اسی احساس کے تحت وہ اردو شاعری میں روائیت کے اندر رہتے ہوئے تعلقات میں بہتری کی تلاش میں رہتا ہے۔اس تگ دو نے اس کے شعری اسلوب کو تخلیق کیا ہے۔ رفیع رضا مسلمات پر اعتبار کرتا ہے لیکن کہیں کہیں انحراف کے رستے بھی نکال لیتا ہے ۔ میرے خیال میں اس کے اسلوب کے اہم پہلو کچھ یوں ہیں ۔(1) رفیع رضا نے اردو غزل میں مستعمل اسلوب سے واضح انحراف کرتے ہوئے غزل کو عام فہم بنا دیا ہے ۔(2)رفیع رضا نے نئی شعری علامتوں کو تشکیل دنے کی کوشش کی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔(3)لسانی سطح پر اردو غزل مشکل پسندی کا شکار تھی۔رفیع رضا نے اسے سیدہے اور آسان رستے پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(4)موضوعات کی سطح پر بھی اردو غزل محدودات کا شکار تھی۔ رفیع رضانے غزل کو محدود مضامین سے نکال کر بہت سے نئے امکانات کا در کھول دیا ہے۔(5) رفیع رضا نے کسی ایک موضوع سے وابستہ نہ رہ کر تمام زندگی کو شعر کا موضوع بنا کر ثابت کیا ہے کہ غزل کم مایہ اور کمزور وسیلہ اظہار نہ ہے ۔اگر صلاحیت ہو تو کوئی بھی بات سلیقے سے غزل کا حصہ بنائی جا سکتی ہے آخر میں کہنا چاہوں گا کہ ہماری رسمی شاعری اس قدر بے ہوش ہو چکی ہے کہ اس کی کائنات ایک بند کمرے سے زیادہ وسیع نہیں ۔ یہ رفیع رضاجیسے شاعر کا کام ہے کہ اس نے اپنے اردگرد کواپنی ذات سے علیحدہ کرنے کی بجائے اسے بھی اپنی ذات کا حصہ سمجھا اور بے ہوش اور رسمی شاعری کو بند کمرے میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور اپنے لیے نئے میدان تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ (ناصر علی مورخہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رفیع رضا ، ایک منفرد اور بلند پرواز پرندہ تبسم وڑا ئچ صآحب۔
بعض لوگ ادب کی تخلیق کے حوالے سے ادب برائے ادب کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں لیکن اگر ادب زندہ انسانوں کے حوالہ سے اور زندگی کے کینوس پر رنگ پکھیرنے کے پس منظر کے ساتھ صورتگری کا حامل ہے تو پھر ادب برائے زندگی اپنے اندر ایک بھرپور معنویت اور مقصدیت کا پیغامبر ہےِ ۔ آج مجھے جس تخلیق کار کے فن اور ادبی محاسن پر اپنی معروضات پیش کرنا ہیں وہ بھی ادب برائے زندگی کے روح پرور نظریہ پر یقین رکھتا ہے ۔ حال ھی میں اس منفرد لب و لہجہ کے مالک شاعر کا شعری مجموعہ ” ستارہ لکیر چھوڑ گیا ” کے نام سے منصّہء شہود پر آیا ہے ۔ اور شناوران سخنوری سے داد و تحسین سمیٹ رھا ہے ۔ گو کہ میں ابھی مذکورہ کتاب کا جم کے مطالعہ نہیں کر پایا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے اس کے زریعہ مجھ پر ایک ایسا درِ حیرت وا ھوا ہے کہ جس نے مجھے ایک ایسے رفیع رضا سے متعارف کروایا ہے جس سے پہلے میں نا آشنا تھا ۔ مجھے اس کتاب کے حوالہ سے رفیع رضا پیک وقت ایک شاعر،ایک انقلابی، ایک محب وطن، انسان اور انسانیت سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا، زندگی کے تمام رنگوں ، جذبوں اور جہتوں کا صورتگر ، معاشرتی ناہمواریوں کا شدید نقاد ، طبقاتی استحصال سے نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والا ، تاریخ کی تلخ ترین سچائیوں کا مرثیہ گو ، مذھب کے نام پر پروان چڑھنے والی بدترین منافقتوں کا نوحہ گر ہے ۔ جہاں پر اپنی شاعری کے آئینے میں رفیع رضا اقوام عالم کے حوالے سے بین الاقوامی و عالمی طاقتوں کے استعماری ھتھکنڈوں اور استحصال پرور رویّوں اور منفی پالیسیوں پر سراپا احتجاج نظ آتا ہے وہیں پر وہ امت مسلمہ کی باہمی کمزوریوں ، ریشہ دوانیوں اور استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی سے بھی اپنے شدید غم و غصی کا توانا انداز میں اظہار کرتا ہے ۔ رفیع رضا بیک وقت انسانی اجتماعی المیوں کا خطیب بھی ہے اور آنے روشن صبحوں کا نقیب بھی ہے، دکھوں،صدموں اور محرومیوں کا بیانگر بھی ہے اور امیدوں، آروؤں اور تمنّاؤں کا پیغامبر بھی ۔ آئیے رفیع رضا سے ملتے ہیں ۔ رفیع رضا کی مزکورہ کتاب میں پرندہ اسکے نمائندہ لفظ کے طور پہ واضح نظر آتا ہے ۔ پرندہ جو کہ ایک معصوم اور بے ضرر مخلوق ہے ، امن و آشتی، صلح جوئی اور بلند نگاھی ، وسیع الظرفی اور کشادہ روئی کی علامت ہے ، بلند ہمتی، جہد مسلسل اور نا مساعد حالات کا دلیری اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کا استعارہ ہے اور یہ لفظ آپ رفیع رضا کی شاعری میں بار بار دیکہیں گے لیکن ھر بار ایک نئے مفہوم اور الگ آھنگ کیساتھ یہ آپکو رفیع کی سوچ دریچوں کی مختلف جہتوں اور زاویوں سے متعارف کراتا ہے ۔ اور شاعر کی سوچ میں پھیلی ھوئی ہمہ گیر وسعتوں اور بیکراں عالم امکانات کا عکّاس ہے ۔ مثالیں اسلئے نہیں دونگا کہ تحریر طوالت کا شکار ھو جائیگی رفیع محبتوں،چاھتوں اور امن عالم کا علمبردار ہے وہ اس عالمگیر اور آفاقی سچائی کا درس دیتے ھوئے بھی اپنی روایتی عقلیت پسندی اور منطق و استدلال کے جاندار روئیّے کا دامن ھاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں دیتا ۔ طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ھی نہیں ہے نفرت کا درندہ ہے محبّت سے گرے گا ساتھ ھی وہ اپنے لوگوں میں پروان چڑھنے والی ایسی برائیوں ، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی کمزوریوں کے مہلک اور تباہ کن اثرات اور نتائج سے اپنے اھل معاشرہ کو خبردار بھی کرتے ہیں دشمن بھی اسی طاق میں مدّت سے ہے لیکن یہ گھر مرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا اسی کے ساتھ وہ تاریخی حقائق کے تلخ پہلوؤں سے بھی چشم پوشی کرنے پہ آمادہ نہیں اور بڑے واضح لہجہ میں اسکا اظہار بھی کرتا ہے اس شہر کی بنیاد میں پہلے بھی لہو تھا یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گرے گا رفیع رضا ایک صاحب شعور اور صائب الرّائے معاشرتی اکائی ھونے کے حوالے سے معاشرہ میں پائے جانے والی مذھبی روایات کو من و عن بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف اندھی عقیدت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے کو تیار نیں بلکہ وہ تو بلند بانگ اعلان کرتے ہیں کہ عجیب لوگ ہیں خود سوچنے سے عاری ہیں روایتوں کو عقیدہ بنا لیا ھوا ہے رفیع رضا عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں اور انسانیت کی بھلائی کے جھوٹے دعویداروں کی دوغلی اور منافقانہ بلکہ انسانیت کش جبر و جور پر مبنی ظالمانہ چالوں اور عالمی امن کو سبوتاژ کرنے والی دھشت گرد پالیسیوں کا انتہائی جرآت اور بیباکی سے پردہ چاک کرتے ہیں کہتا ہے بستیوں کو بسانا ہے اسکا کام ساری زمیں اجاڑ کے کہتا ہے خوش رھو آئین لکھتا رھتا ہے امن و امان کا قرطاس امن پھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو کہتا ہے اب فضا پہ فقط اسکا راج ہے اور پنکھ سب کے جھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو کہتا ہے اس کے قد کے برابر کوئی نہیں آئینے توڑ تاڑ کے کہتا ہے خوش رھو حریّت فکر کا ھر مجاھد دشت کربلا میں حق و باطل کے مابین برپا ھونے والی عظیم ترین معرکہ آرائی میں لشکر الہی کے سپہ سالار حسین ابن علی سے اکتساب فیض اور انکی روایت عشق سے طاقت حاصل کئے بغیر نعرہ ء انالحق لگا ھی نہیں سکتا اور یہی حقیقت رفیع رضا کے ھاں بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ کربلا کی روشنی سے اپنی راہ کا تعیّن کرتے ہیں منظر سب کاٹنے آتے ہیں مرے نام و نشاں کو میں ایک دیئے کا انہیں سر کاٹ کے دے دوں لیکن وہ اس روشن ترین استعارے کا استعمال کس جاندار اور خوبصورت انداز سے فنکارانہ چابکدستی اور مہارت سے کرتے ہیں کہ عقل داد دینے پر مجبور ھو جاتی ہے ڈھونڈ ھی لیتی ہے نیزے کی طرح کوئی بات مجھ سے چھپتا ھی نہیں میرا سر ایسا ہے یہ کتنا بڑا ظلم اور تاریخی بد دیانتی ہے کہ آجتک مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا رھا ہے حالانکہ اسلام کی تاریخ شعب ابی طالب ، غار حرا و ثور ، بدر و حنین،خیبر و خندق و احد و کربلا سے روشن ہے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ جابر و مستبد حکمرانوں ،حجاج بن یوسف جیسے درندوں اور قاضی ابو یوسف جیسے درباری مولویوں اور مفتیوں سے آلودہ ہے ،رفیع شیخ و شا ہ کے اسی ناباک گٹھ جوڑ پر بلیغ تبصرہ کرتے ہیں ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ہے جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ھوا ہے درج زیل اشعار میں رفیع رضا کی اظہار بیان کے حوالے سے جدّت پسندی ، تنوّع اور انفرادیت بھر پور انداز سے قاری کو اپنی سحر بیانی میں گرفتار کرتی نظر آتی ہے اور یہی لب و لہجہ اسے اپنے ہمعصر شعرا ء سے ممتاز و منفرد ٹھراتی ہے لوگ روئے بچھڑنے والوں پر اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے واقعی اپنی زات کی تلاش ، اپنی حقیقت کی پہچان اور اپنی سچائی کا عرفان ھی سب سے مشکل مرحلہ ہے اور جب کوئی اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرکے اپنی زات سے متعارف ھونے پر احساس زیاں کے سوا کچھ نہ پائے تو پھر آنسو ھی حاصل زندگی قرار پاتے ہیں لیکن پھر یہی آنسو اسکی کامیابیوںکا پیش خیمہ ٹہرتے ہیں مجھے اکیلا حد وقت سے گزرنا ہے میں اپنے ساتھ کوئی ہمسفر نہیں لایا
===============
[ترمیم]کیسے دوں آگ کو ، پانی کو ، ھواؤں کو شکست اپنی مٹی کو تو تسخیر نہیں کر سکتا
=================
[ترمیم]آنسو ہے ، پرندہ ہے ، ستارہ ہے ، فلک ہے کیا کچھ نہ تری آنکھ کی غفلت سے گرے گا
=================
[ترمیم]ہمارے نام سے مشہور ھو رہے ہیں میاں کئی پہاڑ یہاں طور ھو رہے ہیں میاں ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں اپنے اس ذھین شاعر کی حب الوطنی اور اپنی دھرتی سے بے پناہ پیار کا زکر کیا تھا ، یہ خوبصورت رویّہ اسکی شاعری میں پوری ادبی وجاھت سے رواں دواں لہو کی گردش اور حرارت کی طرح موجزن ہے ، دیکہیں اس شعر میں دکھ کے احسا س کیساتھ محبت کی چاشنی اور مٹھاس بھی چھلک رھی ہے کاٹتے رھتے ہیں شاخوں کو مرے دیس کے لوگ چھاؤں دیتا چلا جاتا ہے شجر ایسا ہے ھاں یہ دیس ،اسکی فضائیں، اسکی مٹی کی خوشبو اسقدر مہربان ہیں کہ اس کے باسی اپنے ھی دست و بازو نفرتوں اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے جسم سے علیحدہ کردیتے ہیں ناقدرئ عالم کی اس سے افسوسناک مثال اور کہیں نہیں ملیگی لیکن یہ بد قسمت دست و بازو اپنے بدن سے کٹ کے ، اپنی دھرتی سے دربدری کی سزا جھیل کر بھی اپنے اسی گم گشتہ بدن کی سلامتی کیلئے بےقرار رھتے ہیں ملٹن کی پیرا ڈائز لاسٹ کیطرح رفیع رضا بھی اپنی گم گشتہ جنّت کا متلاشی ہے ۔ میری دعا ہے کہ خالق قرطاس و قلم افق شعر پہ رفیع رضا کو رفیع الشّان مقام پہ فائز فرمائے اور یہ ستارہ شاعری کے آسمان پر لکیر نہیں روشن تصّورات کی دھنک اور درخشاں امکانات کی کہکشاں چھوڑ کر جائے ، آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبسم وڑا ئچ صآحب۔