شاذ تمكنت
شاذ تمكنت | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1933ء ریاست حیدرآباد |
وفات | 18 اگست 1985ء (51–52 سال)[1] حیدر آباد |
شہریت | نظام حیدر آباد |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
شاذ تمكنت (پیدائش: 31 جنوری 1933ء – وفات: 18 اگست 1985ء) اردو کے ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کی پیدائش 1933ء میں حیدرآباد میں ہوئی تھی اور انتقال اسی شہر میں 1985ء کو ہوا تھا۔[2] جدید اردو شاعری میں شاذ تمكنت اپنے وقت کے مشہور شاعروں میں خود کو درج کرواچکے ہیں۔ دکن کے نامی گرامی شعرائے کرام میں شاذ تمکنت کا شمار ہوتا ہے۔ روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جس پل کی تعمیر شاذ تمكنت نے کی وہ خود میں ایک دور کاآئینہ دار ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ظاہر ہیں، وہیں ان کا دکھ ،زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔[3] شاذ تمکنت جامعہ عثمانیہ میں اپنے انتقال کے وقت اردو کے ریڈر تھے۔ انھیں ان کے خاندان اور عام ملاقاتی شفیع بھائی کے نام سے جانتے تھے۔ حالاں کہ ان کا حقیقی نام سید مصلح الدین تھا۔
مشہور غزلیں
[ترمیم]- اپنی اپنی شب تنہائی کی تنظیم کریں
- کام آساں ہو تو دشوار بنا لیتا ہوں
- کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
- کوئی تو آ کے رلا دے کے ہنس رہا ہوں میں
- میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا
- میری وحشت کا تیرے شہر میں چرچا ہوگا
- مثال شولہ وشبنم رہا ہے آنکھوں میں
- سمٹ سمٹ سی گئی تھی زمیں کدھر جاتا
- تمام قول او قسم تھا مکر گیا ہے کوئی
- ذرا سی بات آ گئی جدائی تک[2]
مشہور نظمیں
[ترمیم]- آب و گل
- اجنبی
- بے ننگ ونام
- چھٹا آدمی
- در گذر
- ہم شاد
- خوف صحرا
- قید حیات و بند غم
- زنجیر کی چیخ[2]
خاندان
[ترمیم]شاذ تمکنت کے والد کا نام سید حفیظ الدین تھا جو حیدرآباد کے نظام کی جائدادوں کے شعبۂ صرف خاص میں تھے۔ وہ 1942ء ہی میں گذر گئے۔ ان کی والدہ کا نام جیلانی بیگم تھا۔ جو محض چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئی۔ ان کی ماں ماہ رمضان میں حالت روزہ میں انتقال کر گئی۔ ان صدمے کا اظہار انھوں نے اپنی نظم وہ لوری خلاؤں چلی گئی میں کیا تھا۔ شاذ اپنے کلام کے شروع میں ہمیشہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھتے تھے، حالاں کہ ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ ان کے سب سے بڑے بھائی سید نظام الدین تھے، جو وقف بورڈ میں کام کرتے تھے۔ ان کے ایک اور بھائی سید فرید الدین تھے۔ ان کے اس وقت صرف ایک بھائی سید امتیاز الدین بقید حیات ہیں۔
شاذ تمکنت کی اہلیہ کا نام محمدی شاذ تمکنت ہے، جو اب بھی بقید حیات ہیں۔ ان کا سب سے بڑا لڑکا سید اوصاف الدین جامعہ عثمانیہ میں بر سر ملازم ہے۔ دوسرے نمبر ایک لڑکا سید فواد الدین ہے، جو فواد تمکنت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ ایک مصور ہے اور اس کی بیٹی ردا (افزا تمکنت) بھی ایک مصور ہے اور شادی شدہ ہے۔ اس کے علاوہ شاذ تمکنت کے چار اور لڑکے ہیں۔ ان میں سے دو لڑکے خلیجی ممالک میں بر سر روزگار ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ https://www.rekhta.org/authors/shaz-tamkanat
- ^ ا ب پ शाज़ तमकनत - कविता कोश
- ↑ "Details: Vani Prakashan"۔ 24 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2014