سیف الدین سیف
سیف الدین سیف | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 جولائی 1922ء امرتسر ، برطانوی پنجاب |
وفات | 12 جولائی 1993ء (71 سال) لاہور ، پاکستان |
مدفن | ماڈل ٹاؤن، لاہور |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور |
پیشہ | شاعر ، فلم ساز ، فلم ہدایت کار ، غنائی شاعر ، منظر نویس |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
IMDB پر صفحات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سیف الدین سیف (پیدائش: 20 مارچ، 1922ء - وفات: 12 جولائی، 1993ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، نغمہ نگار، مکالمہ و کہانی نگار اور فلمساز تھے۔
حالات زندگی
[ترمیم]سیف الدین سیف 20 مارچ، 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر، برطانوی ہندوستان کے ایک معزز اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[1][2]۔ ان کے آباء و اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام خواجہ معراج دین تھا جو ایک نیک صفت اور درویش منش آدمی تھے۔ سیف الدین سیف کی عمر جب ڈھائی برس ہوئی تو والدہ کا انتقال ہو گیا۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی لیکن میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر کالج پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نے علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔[1]
فلمی دنیا سے وابستگی
[ترمیم]سیف الدین سیف ایف اے کرنے کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور فلمی دنیا کے چند لوگوں کے کہنے پر فلمی کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور کی فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ 1954ء میں انھوں نے اپنا ذاتی ادارہ راہ نما فلمز قائم کیا۔ انھوں نے جن فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے ان میں ہچکولے، امانت، نویلی دلہن، غلام، محبوبہ، آغوش، آنکھ کا نشہ، سات لاکھ، کرتار سنگھ، طوفان، قاتل، انتقام، لخت جگر، امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی، عذرا، تہذیب، انارکلی، انجمن، شمع پروانہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے خود بھی فلمیں بنائیں جن میں سات لاکھ اور کرتار سنگھ شامل ہیں۔[1]
ان کے کچھ مشہور نغمات میں یہ ہیں:
- جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے (انارکلی)
- وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے (لخت جگر)
- چل ہٹ ری ہوا گھونگھٹ نہ اٹھا (مادر وطن)
- جس طرف آنکھ اٹھائوں تیری تصویراں ہیں (ثریا بھوپالی)
- میں تیرا شہر چھوڑ جائوں گا (شمع اور پروانہ)
- اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے (انجمن)
- جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں (امراؤ جان ادا)
- آئے موسم رنگیلے سہانے تو چھٹی لے کے آجا بالما (سات لاکھ)
شاعری
[ترمیم]انھوں نے فلم نگری میں رہنے کے باوجود ادب سے اپنا رابطہ بحال رکھا اور گیتوں کے ساتھ ساتھ نظمیں اور غزلیں بھی تخلیق کرتے رہے۔ سیف الدین سیف کی شاعری سماج کے مسائل اور زندگی کے حقائق کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کرنے بدرجہ اتم کمال رکھتی ہے۔ وہ غم کی عکاسی بہت ہی مکمل اور متوازن انداز میں کرتے ہیں۔ وہ ندرت افکار کے بیان کے لیے ندرت الفاظ کا انداز اپنا کر معنی آفرینی کی ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں جس سے ان کی شاعری میں سحر کاری اور دلکشی پیدا ہوئی ہے۔ اس خوبصورت شاعر کی غزلوں اور گیتوں کی گونج ہمیشہ ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ سیف الدین سیف کے فن و شخصیت پر روبینہ شائستہ نے شاعر کج کلاہ کے نام سے ایک طویل مقالہ لکھا تھا جو کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کی شاعری کے مجموعہ کلام میں خم کاکل ، کف گل فروش اور دور دراز شامل ہیں۔ نغمات کے علاوہ ان کی غزلوں پر بھی مختلف گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا[1]جن میں استاد امانت علی خان اور استاد نصرت فتح علی خان کے نام سرِ فہرست ہیں۔
تصانیف
[ترمیم]- خمِ کاکل
- دوردراز
- کفِ گل فروش
نمونہ کلام
[ترمیم]غزل
راہ آسان ہو گئی ہوگی | جان پہچان ہو گئی ہوگی | |
موت سے تیرے درد مندوں کی | مشکل آسان ہو گئی ہوگی | |
پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی | تجھ پہ قربان ہو گئی ہوگی | |
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا | خود پرشان ہوگئی ہوگی | |
ان سے بھی چھین لوگے یاد اپنی | جن کا ایمان ہو گئی ہوگی | |
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ | ہاں مری جان ہو گئی ہوگی | |
مرنے والے پہ سیف حیرت کیوں | موت آسان ہو گئی ہوگی |
غزل
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے | مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے | |
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانۂ محبت | میں اُسے سنا کے رؤں وہ مجھےے سنا کے روئے | |
مری آرزو کی دنیا دلِ ناتواں کی حسرت | جسے کھو کے شادماں تھےاسے آج پا کے روئے | |
تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر | کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے | |
جو سنائی انجمن میں شبِ غم کی آپ بیتی | کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے | |
کہیں سیف راستے میں وہ ملیں تو اُن سے کہنا | میں اداس ہوں اکیلا میرے پاس آ کے روئے |
غزل
لطف فرما سکو تو آ جاؤ | آج بھی آ سکو تو آ جاؤ | |
اپنی وسعت میں کھو چکا ہوں میں | راہ دکھلا سکو تو آ جاؤ | |
اب و دل ہی نہیں وہ غم ہی نہیں | آرزو لا سکو تو آ جاؤ | |
غم گسارو بہت اُداس ہوں میں | آج بہلا سکو تو آ جاؤ | |
فرصتِ نامہ و پیام کہاں | اب تم ہی آ سکو تو آ جاؤ | |
وہ رہی سیف منزلِ ہستی | دو قدم آسکو تو آ جاؤ |
غزل
وصل کی بات اور ہی کچھ تھی | ان دنوں رات اور ہی کچھ تھی | |
پہلی پہلی نظر کے افسانے | وہ ملاقات اور ہی کچھ تھی | |
دل نے کچھ اور ہی لیا مطلب | آپ کی بات اور ہی کچھ تھی | |
سیف پی کر بھی تشنگی نہ گئی | اب کے برسات اور ہی کچھ تھی |
شعر
دل سے جاتا نہیں دھواں اب تک | تیرے جلتے ہوئے مکانوں کا |
وفات
[ترمیم]سیف الدین سیف 12 جولائی، 1993ء کو لاہور، پاکستان میں انتقال کرگئے اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ ت ٹ عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ پبلی کیشنز کراچی، 2010ء، ص 727
- ^ ا ب سیف الدین سیف، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان