ناصر جہاں
ناصر جہاں | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1927ء لکھنؤ |
وفات | 6 دسمبر 1990ء (62–63 سال) کراچی |
پیشہ | مرثیہ |
درستی - ترمیم |
سید ناصر جہاں(پیدائش: 1927ء— وفات: 6 دسمبر 1990ء) پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر ،نعت خواں اورسلام گزار تھے۔
ابتدائی زندگی اور کیرئیر کا آغاز
[ترمیم]سید ناصر جہاں 1927ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم بھی لکھنؤ میں ہی حاصل کی۔ 1950ء میں پاکستان آ گئے اور ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ انھوں نے پہلے پروڈیوسر، پھر پروگرام آرگنائزر اور پھر پروگرام مینیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ زیڈ اے بخاری کی سرپرستی میں سید ناصر جہاں کی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔[1]
میڈیا پر سوزو سلام اور نعت خوانی
[ترمیم]سید ناصر جہان کی پرسوز آواز اگرچہ ان کے بچپن سے ہی ایامِ محرم میں سوز خوانی اور نوحہ خوانی کی زینت بنی تاہم میڈیا پر جب 1954ء میں سید آل رضا کی نظم شام غریباں کو اپنے خوب صورت لحن میں پیش کیا۔ یہ نظم بعد میں سلام آخر[2] کے نام سے معروف ہوئی تو ملک گیر شہرت ان کے نصیب میں آئی۔ اس کے بعد اگست 1956ء میں جب انھوں نے مجلس شامِ غریباں اور سلام آخر کے درمیان چھنو لال دلگیر کا لکھا ہوا مشہور نوحہ گھبرائے گی زینب[3] پہلی مرتبہ پڑھا تو اس کے بعد سے یہ نوحہ اور یہ سلام نہ صرف ریڈیو پاکستان بلکہ پاکستان ٹیلی وژن کے کی ابتدا سے ہی ایامِ محرم میں مجلس شام غریباں کی نشریات کا لازمی جزو بن گیا اور اس وقت بہت سے پرائیویٹ ٹی وی چینلز بھی مسلسل اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ سید ناصر جہاں ایک اچھے نعت خواں بھی تھے ان کی پڑھی ہوئی کئی نعتیں بے حد مقبول ہوئیں، جن میں امیر مینائی کی نعت جب مدینے کا مسافر کوئی پاجاتا ہوں سرفہرست ہے۔ ان کا گلوگیر آواز میں گایا گیا ایک کلام کسی گھر کا یہ بھی چراغ تھا پاکستانی فلم زینت میں بھی شامل کیا گیا۔[4]
صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی
[ترمیم]حکومت پاکستان نے 1981میں انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔[5]
وفات
[ترمیم]6 دسمبر 1990ء کو سید ناصر جہاں کراچی میں وفات پاگئے۔
مزید پڑھیے
[ترمیم]