مندرجات کا رخ کریں

روشن آرا بیگم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
روشن آرا بیگم
معلومات شخصیت
پیدائش 19 جنوری 1917ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولکاتا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 دسمبر 1982ء (65 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فنکارانہ زندگی
آلہ موسیقی صوت   ویکی ڈیٹا پر (P1303) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ گلو کارہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ویب سائٹ
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

روشن آرا بیگم (انگریزی: Roshan Ara Begum) (پیدائش: 19 جنوری1913ء - وفات: 5 دسمبر 1982ء) ملکہ موسیقی کا خطاب پانے والی نامور پاکستانی کلاسیکی و فلمی گلوکارہ تھیں۔ وہ کیرانہ گھرانے کے شہرہ آفاق ہندوستانی گائیک استاد عبد الکریم خان کی شاگرد تھیں۔

حالات زندگی

[ترمیم]

ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم 19 جنوری، 1913ء کو کلکتہ، برطانوی ہندوستان میں استاد عبد الحق خان کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام وحید النسا بیگم تھا۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے قریبی عزیز استاد عبدالکریم خان سے حاصل کی، جن کی وساطت سے اُن کا تعلق موسیقی کے کیرانا گھرانا سے بنتا ہے[1][2][3]۔ استاد عبد الکریم خاں صاحب سے سیکھے ہوئے راگوں میں چار کو چُن کر ان کو ریکارڈ پر گایا: بسنت، شدھ کلیان، شنکرا اور جھنجوٹی، حقیقت یہ ہے کہ روشن آرا کا مزاج خاں صاحب کے مزاج سے بہت مختلف تھا۔ عبد ا لکریم خان صاحب اداس اور سنجیدہ بزرگ تھے، روشن آرا کا سبھاؤ چنچل اور شوخ تھا۔[4]

روشن آرا بیگم تقسیم ہند سے پہلے ہی کیرانا گھرانا کی خیال گائیکی میں ایک بلند مقام حاصل کر چکی تھیں۔ تب وہ بمبئی والی روشن آرا بیگم کہلاتی تھیں کیونکہ 1930ء کے عشرے کے اواخر میں وہ کلکتہ سے بمبئی منتقل ہو گئی تھیں۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی وہ خاص طور پر آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے لاہور کا سفر کیا کرتی تھیں، جہاں وہ موسیقی کی دیگر محافل میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر کے خوب داد سمیٹتی تھیں۔ لاہور میں موچی گیٹ کے قریب محلہ پیر گیلانیاں میں چن پیر کے ڈیرے پر اُن کے ساتھ یادگار محفلیں سجائی جاتی تھیں۔[2]

وہ کوئی بھی راگ پیش کرنے سے پہلے جب اُس کا الاپ کرتی تھیں تو اُسی میں راگ کے مرکزی سروں کو کھول کر بیان کر دیتی تھیں اور الاپ ہی سے راگ کی پوری شناخت سامنے آ جاتی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ کیرانا گھرانا الاپ گائیکی میں منفرد پہچان کا حامل ہے۔ راگ داری میں تان لگانا آسان نہیں سمجھا جاتا اور تان وہی گلوکار لگا سکتا ہے، جو موسیقی کے فن کے ساتھ ساتھ اپنی سانس کو بھی پوری طرح سے کنٹرول کر سکتا ہو۔ روشن آرا بیگم کی تان میں اُن کے کیرانا گھرانے کا رنگ ملتا ہے۔ اُن کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا، یوں لگتا تھا، جیسے کوئی ندی دھیرے دھیرے بہہ رہی ہو۔[2]

1948ء میں پاکستان منتقل ہونے کے بعد اُن کی شادی کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ ایک پولیس افسر احمد خان کے ساتھ ہوئی، جن کا تعلق لالہ موسیٰ، ضلع گجرات سے تھا۔ روشن آرا بیگم اسی چھوٹے سے شہر سے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کے لیے لاہور کا سفر کرتی تھیں۔[2]

ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے فلموں کے لیے بھی کچھ گیت گائے، جن میں سے زیادہ تر کی دھنیں انیل بسواس، فیروز نظامی، نوشاد اور تصدق حسین جیسے اپنے دور کے نامور موسیقاروں نے ترتیب دی تھیں۔ انھوں نے جن فلموں کے لیے گیت گائے، اُن میں 1945ء کی فلم پہلی نظر، 1947ء کی جگنو، 1956ء کی قسمت، 1960ء کی روپ متی باز بہادر اور 1969ء کی نیلا پربت سمیت سینکڑوں فلموں میں پس پردہ گلوکارہ کے طو رپر انتہائی خوبصورت نغمات ریکارڈ کرائے جنھوں نے ان فلموں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا -[2]

اعزازات

[ترمیم]

حکومت پاکستان نے روشن آرا بیگم کی فنی خدمات کے اعتراف کے طور پر 1960ء میں انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا۔ اس کے علاوہ انھیں ملکہ موسیقی کا خطاب بھی دیا گیا۔[1]

مشہور نغمات

[ترمیم]
  • پیا جاؤ میں توسے نا ہی بولوں (ٹھمری)
  • ڈولے رے من ہولے ہولے
  • نظریا تم ہی سے لگی (دادرا)
  • دیش کی پر فضاؤں میں کہیں (فلم جگنو)

وفات

[ترمیم]

روشن آرا بیگم 5 دسمبر 1982ء میں وفات پاگئیں۔ وہ لالہ موسیٰ، ضلع گجرات میں جی ٹی روڈ پر تعمیر شدہ مقبرہ میں سپردِ خاک ہیں۔[1][3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ص 536، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
  2. ^ ا ب پ ت ٹ کلاسیکی موسیقی بھی فراموش لیجنڈز بھی، ڈوئچے ویلے اردو، جرمنی
  3. ^ ا ب ڈاکٹر منیر احمد سلیچ، خفتگانِ خاکِ گجرات، ص 80، سلیچ پبلیکیشنز گجرات، 1996ء
  4. ڈاکٹر داؤد رہبر، باتیں کچھ سُریلی سی، ص 70، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، کراچی، 2001ء