بدرمنیر
بدر منیر پشتو اردو فلموں کے معروف اداکار ہیں۔ بدر منیر نے اپنے کیرئر کے دوران ساڑھے چار سو سے زیادہ پشتو اور اردو فلموں میں کام کیا۔ انھیں بجا طور پر پشتو فلموں کا سلطان راہی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں اداکاروں کا موازنہ کئی سطحوں پر ہو سکتا ہے، مثلاً دونوں نے اپنے ابتدائی دور میں کئی برس تک چھوٹے چھوٹے کردار کیے، دونوں کی اصل شہرت اُردو کی بجائے علاقائی فلمیں ہیں اور دونوں کے عروج و زوال کا زمانہ کم و بیش ایک ہی ہے۔
عملی زندگی
[ترمیم]بدر منیر نے عملی زندگی کا آغاز کراچی کی سڑکوں پر ایک رکشہ ڈرائیور کی حیثیت سے کیا۔ یہ سن ساٹھ کا عشرہ تھا جب وحید مراد انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد اپنے والد نثار مراد کے تقسیم کار ادارے میں کام کا تجربہ حاصل کر رہے تھے۔ جب اُن کے دوست پرویز ملک امریکا سے فلم سازی کی تربیت لے کر لوٹے تو فلم ہیرا اور پتھر میں وحید مراد کو ہیرو کا رول مل گیا اور وہاں سے کامیابیوں اور ناکامیوں کی ایک طویل کھٹی میٹھی داستان شروع ہوتی ہے جو سن اسی کے عشرے تک چلتی ہے۔
رکشہ ڈرائیور
[ترمیم]اسی داستان کے متوازی کراچی کے رکشہ ڈرائیور بدر منیر کا قصّہ بھی جاری رہتا ہے اور 82 / 1981 میں دونوں کہانیاں ایک عجیب و غریب موڑ پر آ کر ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ بدر منیر فلموں کے دیوانے تھے لیکن فلم سٹوڈیو میں داخل ہونا ایک رکشہ ڈرائیور کی اوقات سے بہت بڑھ کر تھا، چنانچہ انھوں نے رکشہ چھوڑ کر کار چلانے کی ٹھانی اور وحید مراد کے فلمی دفتر میں ایک ڈرائیور کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔
وحید مراد
[ترمیم]اس وقت ڈرائیور کی جگہ خالی نہیں تھی چنانچہ بدر منیر کو دفتر میں چائے وغیرہ بنانے پر مامور کیا گیا۔ چپراسی کے بنیادی فرائض کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت پڑنے پر ڈرائیور کے اضافی فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ 1966 میں جب وحید مراد کی فلم ’ارمان‘ سُپر ہٹ ہوئی تو جشنِ کامیابی کے دوران اُن کے چپراسی اور ڈرائیور نے فلم میں کام کرنے کی دلّی تمنا کا اظہار کر دیا۔ وحید نے کچھ ہی عرصے بعد اپنے ملازم کی یہ خواہش پوری کردی اور اسے فلم’جہاں ہم وہاں تم‘میں ایک چھوٹا سا کردار دِلوا دیا۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وحید مراد سے کام کی درخواست کرنے والے بدر منیر نے ہی خود وحید مراد کو ان کی ناکامی کے دور میں اپنی پشتو فلم ’پختون بہ ولایت کمبا‘ میں کام کی پیشکش بھی کی جسے وحید مراد نے قبول بھی کیا۔ یہ فلم وحید مراد کو تو پاکستان کی فلمی دنیا میں واپس نہ لاسکی لیکن ایک وفادار ملازم، ایک ہمدرد انسان اور درد مند دِل رکھنے والے ایک فن کار کے طور پر بدر منیر کا نام ہمیشہ کے لیے روشن کرگئی۔ ’جہاں ہم وہاں تم‘ کے بعد بدر منیر دو تین برس تک اسی طرح چھوٹے موٹے کردار ادا کرتے رہے یہاں تک کہ 1970 میں دولت و شہرت کی دیوی بدر منیر پر مہربان ہو گئی۔
پشتو فلم یاسمین خان کے ساتھ بدرمنیرکی پہلی پشتو فلم یوسف خان شیربانو 1970
[ترمیم]یاسمین خان کے ساتھ بدر منیر کی پہلی پشتو فلم ’یوسف خان شیربانو‘ منظرِ عام پر آئی تو ہیرو اور ہیروئن دونوں کے لیے ایک نیک فال ثابت ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ پاکستان میں پشتو کی اوّلین فلم تھی۔ اس معروف لوک داستان کی فلم بندی کے بعد بیس برس تک بدر منیر اور یاسمین خانیی کی فلمی جوڑی پشتو فلموں کے ناظرین سے داد وصول کرتی رہی۔ 1970 سے 1990 تک کے عرصے میں یہ جوڑی ستّر سے زیادہ فلموں میں نمودار ہوئی۔ یوں تو سلطان راہی کے عروج کا زمانہ بھی یہی تھا لیکن ہیرو کی منزل تک پہنچنے کے لیے انھیں کئی برس تک وِلن کا منفی کردار ادا کرنا پڑا۔ بدرِ منیر کو ہیرو کا منصب 1970 ہی میں عطا ہو گیا تھا جبکہ سلطان راہی کا مقدّر چمکانے والی فلم’بشیرا‘ کے منظرِ عام پر آنے میں ابھی دو برس باقی تھے۔
ہیروئن
[ترمیم]سلطان راہی کی ہی بدر منیر نے بھی اپنے کیرئر میں پشتو کی ہر معروف ہیروئن کے ساتھ کام کیا جن میں یاسمین خان، ثریا خان، شہناز خان، نمی، مسرت شاہین، خانم، نجمہ، وحیدہ خان اور نادرہ ممتاز وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے دورِ شہرت میں اردو اور پنجابی کی معروف ہیروئنیں بھی ان کے ساتھ کام کرنے میں فخر محسوس کرنے لگیں، چنانچہ نشو، نیلی، بابرہ شریف، دیبا، چکوری حتٰی کہ روحی بانو تک نے بدر منیر کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیے۔
اردو فلم
[ترمیم]اگرچہ بدر منیر کی بنیادی شہرت ایک پشتو اداکار کی حیثیت سے ہے لیکن اپنے طویل فلمی کیرئر کے دوران انھوں نے چالیس کے قریب اُردو فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
پنجابی فلم
[ترمیم]ان کے دورِ عروج میں پنجابی فلموں کے پروڈیوسر بھی انھیں کاسٹ کرنے کے درپے رہتے تھے لیکن بدر منیر پنجابی نہیں بول سکتے تھے اس لیے انھوں نے گنتی کی چند پنجابی فلمیں ہی قبول کی اور اُن میں بھی پنجابی بولنے کی کوشش نہیں کی بلکہ پختون لہجے میں اُردو استعمال کی جو اُن کا فطری محاورہ تھا۔
کنارہ کشی
[ترمیم]بدر منیر کی آخری پشتو فلم’زمانہ پاگل جانانہ‘ 2005 میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھح اور اُس کے بعد سے وہ صاحبِ فراش تھے۔ عوام میں وہ آخری مرتبہ پشتو چینل خیبر کے ایک سٹیج شو میں نمودار ہوئے جہاں انھوں نے پبلک کے پرزوراصرار پر پشتو میں ایک گیت بھی سنایا تھا۔ 11 اکتوبر 2008 کو سٹرسٹھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔