سینیٹر سید مسرور احسن کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فوڈ سکیورٹی کا اجلاس

بدھ 8 جنوری 2025 22:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 جنوری2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فوڈ سکیورٹی کا اجلاس بدھ کو سید مسرور احسن کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کے زرعی شعبے کو متاثر کرنے والے اہم مسائل بشمول کپاس کے سیس کی عدم ادائیگی، چاول کی برآمد کے معیار پر تشویش اور فوڈ سیفٹی کے ضوابط کے فروغ کی ضرورت سمیت دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کپاس کے سیس کی وصولی میں پائے جانے والے فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے خبردار کیا کہ عدم ادائیگی کپاس کی تحقیق اور پیداوار میں نمایاں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی پیداوار میں 15 ملین گانٹھوں سے 5 ملین گانٹھوں تک کمی کا براہ راست تعلق اہم تحقیق کے لیے فنڈز کی کمی سے ہے، پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) کے وائس چیئرمین ڈاکٹر یوسف ظفر نے بتایا کہ اس سال 30 ملین کا سیس اکٹھا کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ نے کاٹن سیس کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور عدم ادائیگی پر جرمانے کو شامل کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔چیئرمین کمیٹی اور وفاقی وزیر رانا تنویر حسین دونوں نے تجویز پیش کی کہ کمیٹی کو نئی قانون سازی کے ساتھ آگے بڑھنے سے پہلے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما)سے ان پٹ حاصل کرنا چاہیے، اس شعبے کی طویل مدتی پائیداری کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضروت ہے۔

کمیٹی نے چاول کی برآمدات کے معیار سے متعلق خدشات کو بھی دور کیا، خاص طور پر اکتوبر 2024 میں ایک واقعے کے بعد جب اٹلی میں غیر معیاری چاول کی وجہ سے ایک کھیپ روک دی گئی تھی۔ ڈی جی پلانٹ پروٹیکشن وقاص سلام نے کمیٹی کو بتایا کہ یورپی یونین کو بھیجے گئے 10300 کنٹینرز میں سے 107 کو روک دیا گیا ہے۔ اندرونی انکوائری کے بعد محکمہ پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کے 17 افسران کو معطل کر دیا گیا جن میں سے 11 فی الحال گرفتار اور دو لاپتہ ہیں۔

فوڈ سکیورٹی کے سیکریٹری سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ پاکستان چاول کی برآمدات کے لیے یورپی یونین کے حفاظتی معیارات پر عمل پیرا ہے، اکثر مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب لیبارٹری کے نتائج دستیاب ہونے سے پہلے چاول بھیج دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے چاول سمیت تمام کھانے پینے کی اشیاء کی جانچ کو سخت کر دیا ہے اور خوراک کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے نئی قانون سازی کی ہے۔

کمیٹی نے ملک میں فوڈ سیفٹی کے وسیع تر خدشات کا بھی جائزہ لیا، بشمول پلاسٹک کے چاولوں کو مقامی طور پر فروخت کیے جانے اور مقامی طور پر تیار کیے جانے والے چاولوں میں آرسینک کی موجودگی کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے فوڈ سیفٹی کے وسیع تر مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ملک میں پیدا ہونے والے دودھ سے زیادہ دودھ فروخت ہو رہا ہے جس کے غیر معیاری ہونے کا خدشہ ہے۔

سیکرٹری وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے بتایا کہ 18ویں آئینی ترمیم نے صوبائی حکومتوں کو ذمہ داریاں سونپ دی ہیں، وفاقی حکومت قومی سطح پر کھانے کے معیار سے نمٹنے کے لیے نئے قوانین تیار کر رہی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو ملک بھر میں خوراک کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی، نئی قانون سازی کے لیے غور و خوض کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پالیسی بنائے گی جس پر صوبے عمل درآمد کریں گے۔ کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ سینیٹ کو پاکستان میں خوراک کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے، کیونکہ صوبے اس نازک مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایران کو پاکستانی آم کے حوالے سے ایکسپورٹ پالیسی پر بات کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ پاکستان نے ایران کو 53205 میٹرک ٹن تازہ آم برآمد کیں جس میں آم کی برآمدی سیزن 2023 کے مقابلے میں تقریباً 56.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا جہاں برآمدات کا حجم 30016 میٹرک ٹن تھا۔

چیئرمین کمیٹی نے تمام آم برآمد کنندگان کے لیے پالیسی کے مطابق کوالٹی ٹیسٹ کے بعد ایران کو آم کی برآمد بحال کرنے کی سفارش کی۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت کو ایس او پی کے مطابق معیار کی جانچ کو یقینی بنانے اور بحالی کو تیز کرنے کی ذمہ داری دی۔