سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کسی عذاب سے کم نہیں

DW ڈی ڈبلیو پیر 6 جنوری 2025 15:40

سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کسی عذاب سے کم نہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جنوری 2025ء) اچنبھا ہے کہ سوشل میڈیا ٹرولنگ، ایک طرح سے "بدلے کی پاداش" کا بہترین محاذ بن گیا ہے۔ کسی سے انتقام لینا ہے، برا چاہنا ہے تو بس کسی نہ کسی طرح کوئی حساس پہلو اپنے حریف کی ذات سے نتھی کر دیں اور پھر نتیجتاً تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مصداق اس ٹارگٹ شدہ انسان اور اس کے خاندان کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔

خواہ وہ گفتار و کردار کے لحاظ سے کتنا ہی ارفع کیوں نہ ہو۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کچھ لوگوں کی حماقتوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہر وقت ٹرولنگ کا نشانہ بننے والے لوگوں کو شدید ڈپریشن کا مرض لاحق ہو رہا ہے اور ان کے کیریئر اور تعلقات پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔

سوشل میڈیا تجزیہ کاروں کے مطابق جو افراد کثرت سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور چڑچڑے پن کا شکار ہیں تو عین ممکن ہیں کہ وہ اس ہتھیار کا ہدف بن چکے ہیں۔

(جاری ہے)

ٹرول کرنے والوں کو اس بات کا احساس بہت کم ہوتا ہے کہ ان کے صرف ایک منفی جملے، فقرے، تبصرے یا ایک مذاق سے دوسروں کی زندگیاں کتنی متاثر ہوتی ہیں۔ ٹرولز اس طریقے سے کام کرتے ہیں کہ ان کا سفید جھوٹ سچ کو پچھاڑ دیتا ہے۔ ایسے ری ایکٹ کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ذاتی لحاظ سے سلیبرٹیز، بہترین ساکھ رکھنے والے لوگوں کو جانتے ہوں۔

حقیقت بات ہے کہ ناتجربہ کار، کم ظرف لوگوں کا سوشل میڈیا کو استعمال کرنا، بندر کے ہاتھ میں ماچس آ جانے کے مترادف ہے جس کی لگائی آگ ہر چیز کو بھسم کر ڈالتی ہے۔

لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شخصی آزادی کے غلط استعمال کا گراف بہت اوپر چلا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حملے ذاتیات پر ہو رہے ہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیتا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اپنی پروفائل پر ذاتی ڈیٹا شیئر کیا ہوتا ہے جو باآسانی غلط عناصر کی دسترس میں آ جاتا ہے۔

ٹرولز اس کی ذات کو اسی کے حلقہِ احباب میں اتنا بھیانک بنا کر پیش کرتے ہیں کہ اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔

مزید برآں متاثرہ شخص کی شخصیت داغدار ہو جاتی ہے۔ لوگ اس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ لاکھ کوشش کرکے بھی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

وہ محاورہ تو آپ Ù†Û’ سنا ہو گا کہ ''بد اچھا بدنام برا‘‘Û” ایسے متاثرہ شخص Ú©ÛŒ زندگی پھر اسی مدار Ú©Û’ گرد گھومتی رہتی ہے۔ بالآخر شدید خوف Ú©Û’ باعث وہ اپنے سوشل سرکل سے کوسوں دور ہو جاتا ہے۔

بلاشبہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا اب ایسا چبوترہ بن چکا ہے جہاں کوئی کسی کی رائے کا احترام نہیں کرتا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کا نقارہ بجانا عام سی بات ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر سیاستدانوں اور سوشل ایکٹیوسٹ وغیرہ کے مضحکہ خیز پوسٹرز ترتیب دے کر ان پر جو کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ خدا کی پناہ!

عصر حاضر میں ایک دوسرے کے لیے برداشت یوں غائب ہو گئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

طوفان بدتمیزی کا سب سے بڑا مظاہرہ انٹرنیٹ اور ٹی۔وی چینلز کی لائیو سٹریمنگ کے دوران کیا جا سکتا ہے، ایسے ایسے کمنٹس ہوتے ہیں جو براہ راست پارٹی سربراہان، اینکر پرسن، پروگرام میں مدعو گورنمنٹ آفیسرز کی ذاتیات کو جھنجوڑتے ہیں۔ منفی رحجان رکھنے والے غلیظ زبان استعمال کرنے کے بعد اپنا موقف عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم بدتہذیبی کی کس نہج پر کھڑے ہیں؟

معاشرے میں سینیئر سٹیزن کی کثیر تعداد شکر گزار ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ سوشل میڈیا کے بغیر گزرا ہے۔

کچھ یہی حال پڑھے لکھے طبقے کا بھی ہے کہ وہ سوشل میڈیا فیور کی زد میں آنے کی بجائے پرہیز کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔

حیرت انگیز بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کرنے والے ایسے بزدل لوگ ہوتے ہیں جو آپ کو ملیں تو سر اٹھا کر بات بھی نہیں کر سکیں گے۔ ذاتیات پر ٹرولز کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو ان کے خاندان والے کسی خاطر میں نہیں لاتے اور وہ مختلف سوشل ایپس پر کمنٹ سکیشنز میں اپنے آپ کو دانشور ڈیکلیئر کر رہے ہوتے ہیں۔

ٹرولنگ کے ضمن میں ایک اہم پوائنٹ ازبر کر لینا چاہیے کہ سوشل میڈیا صارفین شخصی آزادی کا لحاظ رکھیں۔ یہ مصنوعی دنیا ہے، اس کی وجہ سے حقیقی زندگی کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کی اخلاقی و علمی کمزوری کا یہ حال ہے کہ سماجی اتحاد و یگانگت نہ ہونے کے مترادف ہے۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں جہاں اشتعال انگیز تقاریر سے کسی کی عزت کو داغ دار کیا جاتا ہو، مسلک، مذہب کو آڑ بنا کر ناشائستہ گفتگو کرنے کو شخصی آزادی کا نام دیا جاتا ہو۔

ان کے روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات ہونے چاہییں۔بلا تردّد سوشل سائٹس آج کل لوگوں کو ہراس کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ٹول ہے۔ انٹرنیٹ کو رابطے اور معلومات کے لیے استعمال کرنا چاہیے، دوسروں کی عزت نفس مجروح کرنے کے لیے نہیں۔

اگر آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں تو پھر دل کو سمندر جیسا بنانا ہو گا، جس میں لوگوں کی منفیات کا اچار ڈالتے جائیے۔ لوگوں کی پھبتیوں کو نظر انداز کیجیے۔ لوگ اگر طعنوں کا پہاڑ بنا دیں تو اسی پہاڑ پر چڑھ کر اپنی منزل تلاش کر لیں مگر انہیں دل پر نہ لیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔