جب تک حکومت اپوزیشن سے بات نہیں کرے گی ملک آگے نہیں چلے گی‘شاہد خاقان عباسی

ہمارا نظام اس وقت یہ ہے جمہوری رہنما بادشاہت چاہتے ہیں ،سیاسی انتشار ِعدم استحکام کے دوران معاشی ترقی ممکن نہیں

جمعرات 19 دسمبر 2024 17:38

جب تک حکومت اپوزیشن سے بات نہیں کرے گی ملک آگے نہیں چلے گی‘شاہد خاقان ..
اہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 دسمبر2024ء) عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے قومی ایمرجنسی لگی ہے لیکن کیا ڈھائی کروڑ بچوں کے لئے کوئی ایک روپیہ بھی رکھا گیا، لاہور کی تمام سڑکوں پر بتیاں لگ گئی ہیں لیکن اسکول سے باہر بچوں کا حال وہی ہے،چین اور یورپ آج بھی ریفارمز کی بات کر رہے ہیں لیکن ہم آج بھی ریفارمز کی بات نہیں کر رہے، ہمارا نظام اس وقت یہ ہے کہ جمہوری رہنما بادشاہت چاہتے ہیں،سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے دوران معاشی ترقی ممکن نہیں،جب تک حکومت اپوزیشن سے بات نہیں کرے گی ملک آگے نہیں چلے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں منعقدہ پلڈاٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

سیمینار سے مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما خرم دستگیر خان ، سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جس ملک کی لیڈر شپ کو عوامی مسائل نظر نا آئیں وہ ناکام لیڈر شپ ہوتی ہے،سپیکر نے جو مذاکرات کی بات کی ہے وہ جوش آئند ہے، اسمبلی کس لئے ہوتی ہے وہ مذاکرات کے لئے ہوتی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں، یہ مذاکرات لے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان نے آج تک کبھی Absolute Notنہیں کہا اور نا کہے گا، جس گھر کی معیشت کمزور ہو وہ کبھی ایسا کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے قومی ایمرجنسی لگی ہے لیکن کیا ڈھائی کروڑ بچوں کے لئے کوئی ایک روپیہ بھی رکھا گیا ہے، لاہور کی تمام سڑکوں پر بتیاں لگ گئی ہیں لیکن سکول سے باہر بچوں کا حال وہی ہے۔

انہوںنے کہاکہ موجودہ سیاسی نظام ملک میں استحکام نہیں دے سکتا،سوال اس وقت یہ ہے کہ کیا جمہوریت اس وقت پاکستان کے معاشی نظام کو سپورٹ کرتے ہیں۔ہمارا نظام اس وقت یہ ہے کہ جمہوری رہنما بادشاہت چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے بغیر یہ ملک نہیں چلے گا،پاکستان میں جتنی ترقی ہوئی جمہوری دور کے دوران ہوئی ہے۔ ضیا الحق اور ایوب خان کے زمانے میں پیسہ ضرور آیا مگر ملک نے ترقی نہیں کی۔

پاکستان میں ترقی نوے کی دہائی میں ہوئی۔ انہوںنے کہا کہ سیاسی قیادت کا یہ کام ہے کہ ملک کے مسائل کو حل کرے،پاکستان میں سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ڈسکوز جو سالانہ 800ارب کا خسارہ اسکی نجکاری ہم کیوں نہ کرسکے ،پی آئی اے کی نجکاری پر حکومت کا مشغلہ ہے،پی آئی اے میں ہم کیا بیچنا چاہتے ہیں ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں کرسکے۔ ریلوے بھی نجکاری کا ایک ایشو ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تعلیم، دنیا کا تجربہ اور سیاسی معاملات کو سمجھنا چاہیے ، ہماری بیوروکریسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔ پچھلے پندرہ سال سے سینٹ کی نشستیں بیچنا شروع کر دی ہیں،الیکشن چوری ہو رہے پیں۔ جب تک حکومت اپوزیشن سے بات نہیں کرے گی ملک آگے نہیں چلے گی۔ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے دوران معاشی ترقی ممکن نہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارلیمانی کے استحکام کے حوالے سے حکومت کا سنجیدہ رویہ نہیں ہے ، حکومت پارلیمانی کمیٹیوں سے ہمیشہ خائف رہتی ہے ، 26ویں آئینی ترمیم کو جس طرح منظور کروایا گیا وہ پارلیمانی طریقہ نہیں تھا۔

آج افسوس کی بات یہ ہے کہ وزرا ایوان اور پارلیمانی کمیٹیوں میں جھوٹ بولتے ہیں۔ آج صرف پارلیمانی طریقہ اختیار کرنے کی بات ہے۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ڈیموکریسی کے بغیر ملک نہیں چلے گا، ہمیں نظام بدلنا ہو گا۔ہمارے صوبے اسی سوچ پر آپریٹ کرتے ہیں جو چیف منسٹر کے منہ سے نکلتا ہے ۔

چیف منسٹر کے منہ سے نکلا ڈائریکٹو بن جاتا ہے اور کام شروع ہو جاتا ہے۔ عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ڈیموکریسی کے بغیر آپ کا ملک نہیں چلے گا، پاکستان میں جو گروتھ ہوئی ہے وہ ڈیموکریٹک دور میں ہی ہوئی ہے، ایوب خان کے زمانے میں گروتھ آئی، اگر وہ دور ڈیموکریٹک دور ہوتا تو اس سے بھی بہتر گروتھ ہوتی۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اس وقت پرائیویٹائزیشن کی جب کسی ملک نے نہیں کی تھی، ہم نے بینک بیچے، سیمنٹ بیچی اور فرٹیلائزر بیچا، آپ کے پاس تعلیم ہونی چاہیے ڈگری نہیں، آپ کے پاس دنیا کا تجربہ ہونا چاہیے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خرم دستگیر خان نے کہا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے، سیاسی لیڈر شپ کو کیسے یہ باور کروایا جائے کہ جمہوریت صرف اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی نہیں ہے، ہمارے سیاستدانوں یا لیڈران نے زیادہ تر فیصلے اپنے فائدے کے لئے کئے ہیں۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں آمریت کی حکومت کے پاس ہر سال ڈالر آتے رہے ہیں، آمریتوں کے دوران پاکستان کے اصل مسائل کو دبا دیا گیا۔

ابھی تک صرف ایک وزینری اقتصادی پالیسی آئی جو 1990ء کی حکومت نے دی۔ 1990ء کی پالیسی اقتصادی تو ہر لبرل پالیسی تھی۔ اگر ہم نے ڈسکوز اور پی آئی اے کی نجکاری کرنی ہے تو ہمیں پارلیمان میں گفتگو کرنا ہو گی۔ مگر ہم گفتگو کرنے کو تیار نہیں۔ خرم دستگیر نے کہا کہ 2013سے 2018تک ہم نے اپنی حکومت کے دوران پی آئی اے کی نجکاری کرنے کی کوشش کی ،ایک مظاہرہ ہوا جس میں دو لوگ قتل ہو گئے۔

اسکے بعد نجکاری کا عمل رک گیا۔سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے خطاب کرتے ہوئے حکومت پر پی آئی اے نجکاری کا عمل سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا تمام کام مکمل کرلیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت نے پی آئی اے نجکاری کا عمل سبوتاژ کردیا۔پی آئی اے کی نجکاری کے دوران 8بڑے گروہوں کو نکال کر ایک ایسے گروہ کے ساتھ بات کی گئی جس کا ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن میں کوئی تجربہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہاکہ نجکاری کے لیے واضح مقصد اور بیانیہ ہونا چاہیے، دنیا مین کوئی ایک ایسا ملک بتائیں جہاں نجکاری کمیٹی کا سربراہ وزیر خارجہ ہو۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بڑی حکومت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو چھوٹی حکومت کرنے پر یقین رکھتی ہو۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ایک لاکھ سے زائد اساتذہ کی نشستیں خالی ہیں، صرف ایک اوورنج لائن ٹرین کی سبسڈی کے لئے 66ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

دنیا میں چین سمیت کبھی کسی ملک نے نہیں کہا کہ رائٹ آف انفارمیشن یا جمہوریت ختم کردیں تو آپکو مدد دیں گے۔ اب ہماری ایک نظر امریکہ پر ہے اور دوسری کہ کس طرح ہم دوسروں سے پیسہ لے سکتے ہیں ۔امریکہ یورپ اور چین نے ہمارے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھنا ، یہ 25کرور کا ملک ہے جسے کوئی اکیلا وزیراعظم یا کوئی ادارہ نہیں چلا سکتا۔