Episode 59 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 59 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

نشان حیدر
1965ء کی جنگ ہو یا 1971 ء کی ہمارے جوانوں نے دلیری سے میدان میں دشمن کا مقابلہ کیا۔ اور ان جوانوں کا حوصلہ ملکہٴ ترجم نور جہاں نے جمیل الدین عالی کے لکھے ہوئے گیت سے بڑھایا۔
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
ہمارے سپاہیوں نے تو ہر محاذ پر قوم کا سر فخر سے بلند رکھا، لیکن بعض اوقات جرنیلوں نے اس فخر کو زک پہنچائی۔
جمہوریت کو ڈی ریل کر کے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ ہم بحیثیت قوم ہر چیز کو مثالی (Ideal) دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں دنیا کی کوئی چیز بھی کامل نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ مثلاً ہمارے کل بجٹ کا بڑا حصہ لے جانا۔ جمہوریت پر شب خون مار دینا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا۔

(جاری ہے)

'; document.getElementById("div-gpt-ad-outstream-wrap").innerHTML = '
'; document.getElementById("div-gpt-ad-1x1-wrap").innerHTML = '
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-outstream"); }); googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-1x1"); });
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display('gpt-middle-banner'); }); }

اس کے باوجود بھی کچھ دانشور فوج کے دور اقتدار کو اچھا گردانتے ہیں۔ اور آمروں کی طرز حکمرانی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ وہ جمہوری حکمرانوں کو کرپٹ، نکمے اور تخت حکمرانی کے لیے نابالغ سمجھتے ہیں۔ لیکن خاکسار اس طبقہ فکرسے تعلق رکھتا ہے۔ جو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتے ہیں۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
بندہ ناچیز اس نقطہ پر یقین رکھتا ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا شخص 100 فیصد درست یا غلط نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ چیزیں ہمیشہ صحیح اور غلط کا مجموعہ ہوتی ہیں۔
قارئین، ہماری فوج کے اندر بھی کمیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ پچھلے 67 سالوں میں کئی دفعہ فوج نے جمہوریت پر شب خون مارا ہے۔ جو غلط اور قابل تنقید ہے۔ اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو اس فوج نے ملک کے لیے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں۔ جب بھی دشمن نے للکارا ہے تو پاک فوج نے بھرپور ساتھ دیا ہے۔
پاکستان کی ماضی میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں۔ (اس کی وجہ چاہے سیاسی یا کچھ اور ہو اس سے قطع نظر) جب ایک فوجی جوان جو میدان جنگ میں اتر رہا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں صرف وطن کا دفاع ہوتا ہے۔
1965ء کی بھارت سے جنگ میں ہمارے 5 ہزار دو سو انسٹھ جبکہ 1971ء میں 9 ہزار جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اب آپ پچھلے 13 سال سے دیکھ لیں۔ اس دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے 5 ہزار تین سو اناسی جوان شہید ہو چکے ہیں۔
لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے فوجی نوجوانوں کی تعداد 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہونے والوں سے زیادہ ہے۔ لیکن بھارت کے ساتھ 1965ء کی جنگ میں ایک نشان حیدر جبکہ 1971ء کی جنگ میں پانچ نشان حیدر دیے گئے۔ اسی طرح کارگل کی جنگ میں (جس میں پاکستان فوج کی شمولیت کا آخری وقت تک ہم نے انکار کیا) دو نشان حیدر دیے۔
ہماری یہی فوج پچھلے 13 سال سے دہشت گردوں کے مقابل صف آرا ہے۔ اس جنگ میں شہید ہونے والے ایک سپاہی کو بھی اس کی بہادری اور دلیری کے اعتراف میں نشان حیدر سے نہیں نوازا گیا۔ جو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس سے ہمارے فوجی جوانوں کے لیے مثبت پیغام نہیں جاتا اور نہ ہی پاکستانی عوام کو اپنا دشمن صاف پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ ان بہادر سپاہیوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگ کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے جان کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے۔ جن فوجیوں نے حالیہ دہشت گردی کی جنگ میں جام شہادت نوش کیا ہے۔ ان سپاہیوں میں سے بہادر اور جوانمرد سپاہی کو میرٹ کی بنیاد پر نشان حیدر دیا جائے۔ جو جوان زندہ ہیں۔ دلیری سے لڑ رہے ہیں ان کو بھی تمغوں سے نوازا جائے۔ اس ملک کے بہادر سپاہیوں کو نشان حیدر دینا دور حاضر میں انتہائی ضروری ہے۔ اپنے فوجیوں اور دیگر سکیورٹی اداروں کے غازیوں اور شہیدوں کو نشان حیدر اور دیگر تمغے دیکھ کر ہم بکھری ہوئی قوم کو یکجا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے فوجی بھائیوں کو حوصلے مزید بلند کر سکتے ہیں۔
آج ہم جن لوگوں سے لڑ رہے ہیں اپنے جوانوں کے گلے کٹوا رہے ہیں۔ ان کو دشمن کہنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ یہ امر فکری طور پر بٹی ہوئی قوم کی نشانی ہے۔ ریاست پاکستان کو منتشر قومی سوچ سے بھی بڑھ کر ایک اور خطرہ نظریہ کا ہے جس نے ہماری افواج اور کثیر تعداد میں ہمارے پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں کو کئی دہائیوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کی لغت میں دشمن کے معنی صرف ہندوستان کے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں میں ہمارے دشمنوں کی فہرست میں بھارت کے بعد امریکہ بھی شامل ہوتا محسوس ہوتا ہے (اگرچہ یہ تاثر بھارت دشمنی جتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکا ہے)۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سپاہیوں کو اس بنیادی نظریہ کی ترویج کی جائے کہ جو ہمارے ملک کے آئین کا دشمن ہے اور جو حکومت کی رٹ کو نہیں مانتا وہ بھی پاکستان کا دشمن ہے۔
اسی طرح ہمارے دفاعی اداروں کی اندرونی پالیسی میں واضح اور عملی تبدیلی لانی چاہیے کہ اداروں اور دیگر سکیورٹی اداروں میں تیزی سے ذکر بالا نظریے کے مطابق تمام دفاعی اداروں کے اہلکاروں کی ذہنی آبیاری کی ضرورت ہے۔
آپ کا صرف ہندوستان دشمن نہیں جس کو ہم ازلی دشمن کہتے ہیں۔ بلکہ ہر وہ شخص یا گروہ آپ کا دشمن ہے (چاہے وہ آپ کی سرحد کے اندر ہو یا باہر ہو) جو آپ کے آئین اور قانون کو نہ مانے اور آپ کی حکومتی رٹ کو قبول نہ کرے۔
ماضی میں ایسے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں۔ جن سے تاثر ملتا ہے کہ ہمارے دفاعی اداروں کے اندر سے شدت پسندوں کے متعلق نرم رویہ کسی حد تک روا رکھا گیا ہے۔
اگر ہم نے شدت پسندوں سے مقابلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے خفیہ ایجنسیوں کو اپنی صفوں کو درست کرنا ہو گا۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی صفیں درست نہ کیں تو ہم خود انتشار کا شکار رہیں گے۔ اور کوئی بھی گروہ ہم پر چڑھ دوڑے گا۔
امریکہ ہمیشہ یہی کہتا رہا ہے کہ ہم جب بھی پاکستان کو شدت پسندوں کے متعلق معلومات دیتے تھے۔ وہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ جاتی تھی۔
اس لیے کافی عرصہ سے امریکہ پاکستان کو عسکریت پسندوں کی خفیہ معلومات دینے سے گریز کر رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اسامہ بن لادن کا واقعہ ہے۔ یہ حملہ اس لیے خفیہ رکھا گیا کہ کسی کو اس آپریشن کی خفیہ معلومات دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان نے جتنے بھی آپریشن کیے ہیں اس میں کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ نہیں مارا گیا۔ جبکہ جتنے بھی اہم افراد مارے گئے ہیں وہ امریکی ڈرون سے ہی مارے گئے ہیں۔
(جن کے بارے میں معلومات پاکستانی خفیہ ایجنسی سے مخفی رکھی گئی)۔ اس لیے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہماری خفیہ ایجنسیوں کی اندر سے اصلاح اور ”تطہیر“ کی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اپنی مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو جب بھی دیکھیں تو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر اس بات کا ثبوت دیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور ہم اپنے محافظوں کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑے ہیں۔ امید ہے کہ آپ یہ قومی فریضہ آج بلکہ ابھی سے ادا کرنا شروع کر دیں گے۔
Previous Episode Next Episode
Facebook Twitter Reddit Pinterest Whatsapp

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 1

قسط نمبر 2

قسط نمبر 3

قسط نمبر 4

قسط نمبر 5

قسط نمبر 6

قسط نمبر 7

قسط نمبر 8

قسط نمبر 9

قسط نمبر 10

قسط نمبر 11

قسط نمبر 12

قسط نمبر 13

قسط نمبر 14

قسط نمبر 15

قسط نمبر 16

قسط نمبر 17

قسط نمبر 18

قسط نمبر 19

قسط نمبر 20

قسط نمبر 21

قسط نمبر 22

قسط نمبر 23

قسط نمبر 24

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

آخری قسط