Episode 38 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 38 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

گرم پانی کی سرد جنگ!
بحیرئہ کیسپیئن میں موجود بیش بہا معدنی ذخائر جو خام تیل اور گیس کی وافر مقدار پر مشتمل ہیں اگر کسی طور گرم پانیوں تک رسائی پا لیں تو ہماری گوادر بندرگاہ کی قسمت کھل جائے گی۔ مگر جب میں پاکستان کا نقشہ دیکھتا ہوں تو بحیرہ کیسپیئن اور گوادر کے درمیان غیر مستحکم شورش زدہ جنگ سے بے حال افغانستان، دہشت گردوں کے رحم و کرم پر پڑے ہمارے قبائلی علاقہ جات، دہشت زدہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور مخدوش حالات سے نبردآزما ہوتا بلوچستان کی موجودگی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور لاقانونیت کی فضاء بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ زمینی حقائق اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وسط ایشیائی ریاستوں سے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک خطے کو ایک منظم سازش کے تحت اس تیل و گیس اور عام تجارت کی تمام گزرگاہوں کو آمدورفت کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

'; document.getElementById("div-gpt-ad-outstream-wrap").innerHTML = '
'; document.getElementById("div-gpt-ad-1x1-wrap").innerHTML = '
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-outstream"); }); googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-1x1"); });
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display('gpt-middle-banner'); }); }

یہ جاننے کے لیے اس سب کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟ ہمیں یہ سمجھنا انتہائی لازمی ہے کہ وسط ایشیاء سے تیل اور گیس کی بحیرہ عرب تک ترسیل اور اس روٹ پر بین الاقوامی تجارت سے کن ممالک کو معاشی نقصان ہو سکتا ہے؟ غور کریں اگر روس کے پڑوس سے یہ تیل اور گیس کے ذخائر پائپ لائن کے ذریعے گوادر تک پہنچتے ہیں تو تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال عرب ممالک اور ایران کو تیل کی عالمی مارکیٹ میں سخت مقابلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اس مقابلے کو سمجھنے کے لیے معاشیات کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ اگر بازار میں کسی شے کی رسد جس رفتار سے بڑھے اسی رفتار سے اس شے کی طلب میں اضافہ نہ ہو تو اس شے کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ بھلا کون اپنی بے شمار دولت اور اجارہ داری کو اتنی آسانی سے ہاتھ سے جانے دینا چاہے گا؟
وسط ایشیائی ریاستوں سے جنوبی ایشیاء تک تیل اور گیس کی فراہمی کے بارے میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا نے مشترکہ طور پر ایک پائپ لائن منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا۔
اس منصوبے کا نام ٹاپی (Tapi) رکھا گیا۔ اس منصوبے کی ابتداء دراصل قازقستان اور ترکمانستان میں موجود بین الاقوامی آئل کمپنیوں نے کی۔ ان کا مقصد وسط ایشیائی ریاستوں میں موجود معدنی ذخائر خصوصاً قدرتی گیس کو جنوبی ایشیاء اور بعد ازاں یورپ اور امریکہ تک پہنچانا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس 1735 کلو میٹر لمبی پائپ لائن میں سے 735 کلو میٹر لمبی لائن افغانستان میں سے گزرے گی جو کہ طالبان شدت پسندوں کے نشانے پر ہو سکتی ہے مگر افغان وزیر پٹرولیم نے 17 جولائی کو صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں کہا کہ تقریباً 9 سے 12 ہزار کے قریب پولیس اہلکار اس پائپ لائن کی نگرانی پر مامور ہوں گے۔
ADB کے مطاق اس گیس پائپ لائن سے ان ممالک کی ناصرف انرجی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ کئی ہزار افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ اگر یہ پائپ لائن افغانستان کے راستے پاکستان تک آتی ہے تو نہ صرف روس بلکہ اس سے وسطی ایشیاء کی آزاد ہوئی ریاستوں سمیت یورپ، بھارت اور چائنہ بھی اس سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بھارت اس وقت اپنی خام تیل اور گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایران کی طرف دیکھ رہا ہے اگر ایک متبادل بھارت کو میسر آ جائے تو بھارت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
معاشیات کے ایک اور قانون کے مطابق خریدار کے لیے اگر آپشن بڑھ جائیں تو کسی شے کی قیمت بھی کم ہو جایا کرتی ہے۔ اسی طرح اگر خطے کے جغرافیائی حالات کا تجربہ کرتے ہوئے بحیرہ عرب کے نقشے پر دبئی، بندر عباس (ایران کی بندرگاہ) اور گوادر کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ آزاد روسی ریاستوں مثلاً ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان ، چیچنیا وغیرہ سمیت چائنہ، افغانستان اور پاکستان کے لیے گوادر تجارت کے اعتبار سے دبئی اور بندرعباس کی نسبت موزوں ترین بندرگاہ ہے۔
لہٰذا دبئی اور ایران کے علاوہ دیگر عرب ممالک کی معیشت پر گوادر ایک کاری ضرب لگا سکتا ہے۔ قارئین کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہو گا کہ آخر کراچی کے ہوتے ہوئے گوادر بندرگاہ کی اتنی اہمیت کیوں؟ یا گوادر کراچی کی نسبت ایران، دبئی اور دیگر ممالک کی بندرگاہوں کے لیے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟ جواب یہ ہے کہ گوادر کراچی کی نسبت ایک گہرا ساحل ہے اور وہاں زیادہ وزنی اور بڑے جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں جو کہ تیل کی ترسیل میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
اب ذرا غور کریں کہ بحیرہ کیسپیئن سے نکلنے والے تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر میں سے محض تیل کی رسد گوادر بندرگاہ سے دنیا بھر میں شروع ہو جائے تو پاکستانی معیشت بہت کم وقت میں متحدہ عرب امارات (دبئی) اور قطر کی معیشت سے زیادہ مستحکم ہو جائے گی اور رائلٹی کی صورت میں ملنے والا تیل اور گیس پاکستان اور افغانستان کو اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ثابت ہو سکتے ہیں۔
یعنی پاکستان کے لیے ”آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام“……
تاریخ کے پیرائے میں دیکھا جائے تو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کا مفاد اس خطے سے تو ختم ہو گیا مگر تیل پیدا کرنے والے چند مسلم ممالک کا مفاد اس خطے سے جڑا رہا اور یہ مفاد تھا وسطی ایشیائی ریاستوں میں موجود تیل اور گیس کو بحیرہ عرب کے گرم پانیوں سے دور رکھنا۔ اس کے علاوہ گوادر کو دبئی اور بندر عباس کے متبادل کے طور پر کامیاب کرنے کے منصوبوں کو ثبوتاژ کرنا۔
یہی دلیل ہے کہ اسامہ بن لادن افغان جنگ کے بعد بھی پہلے کی طرح فعال رہا۔ اسامہ نے افغان جنگ میں مارے گئے مجاہدین کے بچوں کو اکٹھا کر کے اپنے شدت پسندانہ ایجنڈے کو ان کے کمزور ذہنوں میں رچا بسا دیا۔ بچوں کی اس ذہنی آبیاری کا کام افغانستان میں اور چند مخصوص پاکستانی مدرسوں میں بھی کروایا گیا۔ ان مدرسوں کے طالبعلم بچوں کی فوج کو ہم آج طالبان کے نام سے جانتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے کیمپس کھولنا 1998ء میں نیروبی میں امریکی ایمبیسی پر حملہ اور بعد ازاں نائن الیون بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مکروہ ترین بین الاقوامی منصوبے کا حصہ تھے۔ اسامہ بن لادن نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر چلتے ہوئے نائن الیون کروانے کے بعد طالبان کو اس مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اپنے زمانہ یتیمی اور مفلسی کے محسن کو امریکہ کے حوالے کریں۔
یا امریکہ کے ساتھ جنگ لڑیں؟ اس موقع پر بھی اسامہ نے طالبان کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا اور صرف اپنی ذات کی وجہ سے پورے افغانستان کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ طالبان ذہنی طور پر اتنے پختہ ہو چکے تھے کہ وہ اسامہ کی پالیسی کے برخلاف تجارت کا فیصلہ کر پاتے مگر اپنے ان داتا کو امریکہ کے حوالے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ اس قلیل مدت میں نہ کر سکے۔
یہی وہ منطقی نتیجہ تھا جس کا اسامہ کو نائن الیون سے پہلے ہی سے بھرپور علم تھا۔ امریکہ اور روس سرد جنگ کے خاتمے بعد اسامہ کا افغانستان اور پاکستان میں پناہ لینے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان ممالک میں کسی بھی طور امن پیدا نہ ہو سکے۔ اس منصوبے کے لیے سرمایہ مبینہ طور پر تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے ہی اسامہ کو فراہم کیا۔ کیونکہ سر دجنگ کے خاتمے کے فوراً بعد ہی امریکہ نے فنڈز دینا بند کر دئیے تھے۔
جس کا گلہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور چند دینی جماعتیں اکثر کرتی رہتی ہیں۔ یہود و نصاریٰ کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے والے افغان جہاد کے دوران اسرائیل اور امریکہ سے حاصل شدہ اسلحہ اور پیسہ استعمال کرتے رہے۔ پر آج کل فنڈنگ کہیں اور سے ہو رہی ہے۔ اس لیے کل کے دوست آج سب سے بڑے دشمن ٹھرائے جاتے ہیں۔
پاکستانی ترقی میں واحد رکاوٹ ہمارے ہاں امن و امان کی ناقص صورت حال ہ ے۔
امن و امان کی بہتری کے ساتھ ہی براستہ کراچی اور گوادر روس، چائنہ، افغانستان، بھارت اور پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ ہمارے نام نہاد مذہب کے ٹھیکیدار ضرورت سے زیادہ پرجوش مذہبی قسم کے غیر مذہبی سکالرز، پاکستان اور افغانستان کی صورتحال پر دن رات نظریاتی قسم کے جذباتی تجزیے کرتے نہیں تھکتے۔ محض مذہب کو بنیاد بنا کر پاکستان کی مخدوش صورت حال کا ذمہ دار امریکہ، بھارت اور دیگر مغربی ممالک کو ٹھہراتے ہیں۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ پرامن پاکستان کا سب سے زیادہ فائدہ خود پاکستان کے بعد چین بھارت اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو ہو گا۔ جنہیں وسط ایشیاء کے تیل اور گیس کی اشد ضرورت ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں امن کے بغیر اس تجارتی گزرگاہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مگر دوسری طرف پر امن پاکستان میں تجارت کے اس نئے دور کا آغاز تیل پیدا کرنے والے دیگر اسلامی ممالک اور اس خطے میں بین الاقوامی تجارت کی اجارہ داری قائم کیے ہوئے دبئی کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ اس سارے معاملے کے تجزیے کے بعد افغانستان، پاکستان کے شمالی بارڈر، کراچی اور بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے پیچھے محرکات کا نسبتاً بہتر اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
Previous Episode Next Episode
Facebook Twitter Reddit Pinterest Whatsapp

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 1

قسط نمبر 2

قسط نمبر 3

قسط نمبر 4

قسط نمبر 5

قسط نمبر 6

قسط نمبر 7

قسط نمبر 8

قسط نمبر 9

قسط نمبر 10

قسط نمبر 11

قسط نمبر 12

قسط نمبر 13

قسط نمبر 14

قسط نمبر 15

قسط نمبر 16

قسط نمبر 17

قسط نمبر 18

قسط نمبر 19

قسط نمبر 20

قسط نمبر 21

قسط نمبر 22

قسط نمبر 23

قسط نمبر 24

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

آخری قسط