Episode 18 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 18 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

قصور وار کون……؟ عوام یا لیڈر……
ہوا میں لہراتی سنہری دراز زلفوں والی سرخ لباس میں ملبوس اس خاتون کی تصویر نے ترکی میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کسی ٹاپ ماڈل کا فوٹو شوٹ نہیں تھا۔ بلکہ ترکی میں جاری ملک گیر احتجاج کے دوران ایک خاتون پر جب انتہائی قریب سے ایک پولیس والے نے آنسو گیس چھوڑی تو وہ خاتون ”مردانہ وار“ اس کا مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اس منظر کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا اور لاکھوں کروڑوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کی تصویر کو دیکھنے کے بعد خاتون کو (Iconic Woman) کا خطاب دے ڈالا۔ 28 مئی 2013 کی صبح کچھ پچاس کے قریب ماہرین ماحولیات استنبول کے ”تکسیم گزی پارک“ میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ترکی کی حکومت نے اس پارک کو مسمار کر کے ایک عمارت بنانے کا اعلان کیا کر دیا کہ پورے ترکی میں ایسی احتجاجی تحریک شروع ہوئی کہ کمال اتاترک کے بعد غالباً سب سے زیادہ مقبول لیڈر طیب اردگان کی حکومت کے درو دیوار لرز گئے۔

(جاری ہے)

'; document.getElementById("div-gpt-ad-outstream-wrap").innerHTML = '
'; document.getElementById("div-gpt-ad-1x1-wrap").innerHTML = '
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-outstream"); }); googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-1x1"); });
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display('gpt-middle-banner'); }); }

کچھ ہی گھنٹوں میں ”تکسیم گزی پارک“ تکسیم اسکوائر میں تبدیل ہو گیا۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے شل بھی چلائے، ٹینکوں سے پانی بھی بھرپور ”پریشر“ سے پھینکا گیا مگر قوم منتشر نہ ہوئی۔ یہ جذبہ دیکھ کر مجھ جیسے بہت سے پاکستانی احساس کمتری کا شکار ہو گئے۔ آخر ہم کیوں اتنے مظالم کے خلاف کوئی بھرپور ”دھرنی“ بھی نہیں دے سکتے؟ ہماری مجموعی قومی غیرت کہاں چلی گئی ہے؟
طیب اردگان گزشتہ تقریباً دس برس سے ترکی میں بلا شرکت غیر اقتدار میں ہیں۔
ترکی کو ”جدید ترقی یافتہ ترکی“ بنانے میں ان کا کردار مثالی ہے مگر ذرا سی چوک ہو گئی اور مناظر ہم سب کے سامنے ہیں۔ ترکی میں تو معاملہ محض ایک پارک کو مسمار کرنے کا تھا اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی قوم تو اس قدر بیگانگی کا شکار تھی کہ آدھا ملک ہی ہم سے الگ ہو گیا اور ہم کوئی جاندار احتجاجی تحریک بھی نہ چلا سکے۔
آخر کیا وجہ تھی؟ وہ کون سی مجبوری تھی کہ یہ قوم سوتی ہی رہ گئی اور ملک دو لخت ہو گیا؟ اس وقت عوام کیوں باہر نہیں نکلی اور ان کرداروں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جا سکا جو اس گھناؤنے کھیل میں فعال رہے؟
ایک صاحب ہوا کرتے تھے ایوب خان کے دور حکومت میں، وزیر خارجہ بھی رہے۔ سندھ کے ایک گاؤں گڑھی خدا بخش سے اٹھ کر اس ملک کے کرووڑں دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
انہی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے عوامی اجتماعت میں لاکھوں جیالے دیوانہ وار شرکت کرتے تھے۔ یہ بھٹو صاحب کے ہم زبان ہو کر جلسوں میں محنت کرنے، بھٹو صاحب کا ساتھ دینے اور لڑنے پر خدا کی قسم بھی کھاتے تھے۔ بھٹو صاحب اقتدار میں بھی آ گئے۔ خود محنت بھی کرتے رہے مگر عوام نے محنت نہیں کی۔ بھٹو صاحب اقتدار جانے کے بعد بھی لڑتے رہے اور خدا کی قسم لڑتے ہی رہ گئے۔
مگر یہ لوگ سوتے رہے۔ ایک فوجی آمر آیا، اقتدار پر قبضہ کیا۔ یہ لوگ چپ رہے۔ بھٹو صاحب اس زعم کا شکار رہے کہ اگر ان کے جلسوں میں شریک جیالوں میں سے نصف بھی لیاقت باغ میں جمع ہو گئے تو ڈکٹیٹر تھرتھر کانپے گا۔ مگر کچھ نہیں ہوا۔ اس لیڈر نے معافی کو مسترد کر دیا۔ پھر ہوا یہ کہ اس ملک کو ایٹمی پروگرام دینے والا، تمام اسلامی ممالک کو لاہور میں اکٹھا کرنے والا، سقوط ڈھاکہ کے بعد بے حال اور مایوس عوام کو حوصلہ دینے والا گڑھی خدا بخش کا ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر جھول گیا۔
مگر عوام ”ستو“ پی کر سوتے رہے۔
ذرا غور کریں۔ تھوڑا ماضی میں جائیں اور موازنہ کریں۔ ہمارا ایک پڑوسی ملک ایران ہے۔ جب ادھر ہمارے ملک میں اس قوم کے سب سے مقبول لیڈر کو پھانسی دی جا رہی تھی ادھر ایران میں امام خمینی کی آڈیو کیسٹس سن سن کر عوام انقلاب لانے کو تھے۔ ہمارا لیڈر کال کوٹھڑی میں تنہا تھا مگر اپنے ملک میں ہی تھا۔ ان کا لیڈر فرانس میں تھا مگر پوری قوم اس کے ساتھ تھی۔
ہمارا لیڈر اس خوش فہمی میں مارا گیا کہ قوم اٹھ کھڑی ہو گی اور ایک دن پھر قوم کے درمیان ہوں گا۔ ان کا لیڈر قوم سے دور ہو کر بھی قوم کے دلوں میں تھا۔ فرق بہت تھا جو آج بھی ہے۔ ایران میں قوم قربانی کے لیے تیار تھی۔ ادھر ہم بحیثیت قوم قربانی اپنے لیڈر سے مانگ رہے تھے۔
ایران پر رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت تھی۔ سپر پاور امریکہ اس کی سرپرستی کر رہا تھا۔
سی آئی اے نے اپنے ڈیرے تہران میں ڈالے ہوئے تھے۔ رضا شاہ پہلوی انتہائی سفاک حکمران تھا۔ انقلاب ایران کو کچلنے کے لیے اس نے ہزاروں لوگوں کو مروا دیا۔ مگر پھر بھی ایرانی قوم نے فیصلہ کر لیا تھا اور انقلاب آ کر ہی رہا۔ اور لیڈر اس وقت ایران آیا جب انقلاب آ چکا تھا۔ شاہ کی افواج اس وقت ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو گئی جب اس غیور قوم کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد عورتیں ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔
دوسری جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ہمارے ملک پر مسلط تھا۔ وہ جنرل کسی طور پر بھی شاہ جتنا مضبوط اور سفاک نہیں تھا۔ ہماری قوم لاکھوں تو کیا سینکڑوں کی تعداد میں بھی باہر نہیں نکلی۔ وہ آمر کے لشکریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیسہ پلائی دیوار نہ بن سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کا سب سے مقبول لیڈر مارا گیا۔ اور ساتھ ہی قوم کی غیرت بھی تختہ دار پر جھول گئی۔
بد قسمتی کا یہ سلسلہ تھما نہیں۔ اب باری تھی پنجاب کے لیڈر کی۔ یہ دو تہائی اکثریت لیے ایوان میں داخل ہوا تو بے حد خوش اس لیے تھا کہ ملک کے طول و عرض کے عوام نے اسے اپنا لیڈر چنا تھا۔ پھر ایک ڈکٹیٹر نے دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو قید کر دیا وہ اٹک قلعے میں کئی ماہ قید رہے مگر اس لیڈر کے لیے کوئی باہر نہیں نکلا۔
اٹک قلعے میں قید اس لیڈر کا خیال تھا کہ پنجاب اس کا قلعہ ہے مگر… ایک تہائی ووٹرز بھی باہر آتے اور احتجاج کرتے تو کیا مجال تھی کہ کوئی ڈکٹیٹر ٹک پاتا۔ خود نواز شریف کو کہنا پڑا کہ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ ”قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کا نعرہ لگانے والے متوالوں نے میاں صاحب کا ساتھ نہ دیا۔ پر اس بار ہمارے لیڈر نے دانش مندی اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستانی عوام سے اپنی حمایت میں ڈکٹیٹر کے خلاف عملی مزاحمت پر اکتفا کرنے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کر لیا۔
اس طرح ہمارا لیڈر آمر کے شکنجے سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ پر افسوس ایک بار پھر ہماری قوم نے بیدار ہونے کا موقع گنوا دیا۔
اب ہم کس منہ سے اپنے لیڈران سے ہمارے لیے سارے جہاں کے مصائب سے ٹکرا جانے کی توقع رکھتے ہیں؟ بکریوں کا رہنما چرواہا کہلاتا ہے ناکہ قومی لیڈر۔ ناجانے ہم اتنے سادہ کیوں ہیں کہ اتنے تلخ تاریخی حقائق کے باوجود ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ اس قوم کے لیڈران آج بھی محض ہماری قومی حمیت پر بھروسہ کرتے ہوئے آتش نمرود میں کود جائیں گے۔
حقیقی عوامی لیڈر کے پاس عوام کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ نہ اس کے پاس بندوقیں اور توپیں ہوتی ہیں اور نہ ہی طاقتور ممالک کے حکمرانوں کی صورت میں جگری دوست۔ ان کا کل اثاثہ ان کے عوام اور قومی غیرت ہوتی ہے۔ ہم کب تک اس سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے کہ کوئی ہالی وڈ فلموں کے ”سپرمین“ جیسا لیڈر آ کر محض زور بازو سے اس قوم کی تقدیر بدل دے گا۔
قوموں کی تقدیریں تو قومیں خود بدلا کرتی ہیں۔ آمریت کو مات لیڈر نہیں بلکہ ”جلیانوالہ باغ“ جیسے واقعات دیا کرتے ہیں۔ قومیں لیڈروں کی تقاریر سے نہیں بلکہ ”تحریر سکوائر“ اور “تکسیم اسکوائر“ سے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ کیا ہمارے جیتے جاگتے قومی لیڈر کی وقعت ترکی کے ایک تفریحی پارک جتنی بھی ہم سمجھتے ہیں؟
Previous Episode Next Episode
Facebook Twitter Reddit Pinterest Whatsapp

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 1

قسط نمبر 2

قسط نمبر 3

قسط نمبر 4

قسط نمبر 5

قسط نمبر 6

قسط نمبر 7

قسط نمبر 8

قسط نمبر 9

قسط نمبر 10

قسط نمبر 11

قسط نمبر 12

قسط نمبر 13

قسط نمبر 14

قسط نمبر 15

قسط نمبر 16

قسط نمبر 17

قسط نمبر 18

قسط نمبر 19

قسط نمبر 20

قسط نمبر 21

قسط نمبر 22

قسط نمبر 23

قسط نمبر 24

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

آخری قسط