سونیا گاندھی
سونیا گاندھی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(اطالوی میں: Sonia Gandhi) | |||||||
مناصب | |||||||
صدر انڈین نیشنل کانگریس | |||||||
برسر عہدہ 14 مارچ 1998 – 16 دسمبر 2017 |
|||||||
| |||||||
قائد حزب اختلاف | |||||||
برسر عہدہ 19 مارچ 1998 – 22 مئی 2004 |
|||||||
| |||||||
صدر انڈین نیشنل کانگریس | |||||||
برسر عہدہ 10 اگست 2019 – 17 اکتوبر 2022 |
|||||||
| |||||||
رکن راجیہ سبھا | |||||||
آغاز منصب 3 اپریل 2024 |
|||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 9 دسمبر 1946ء (78 سال)[3][4][5][6] لوسیانا |
||||||
رہائش | 10 جنپت (1989–)[7] | ||||||
شہریت | اطالیہ (–اپریل 1983) بھارت (13 اپریل 1983–)[2] |
||||||
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس [8] | ||||||
شریک حیات | راجیو گاندھی (1969–1991) | ||||||
اولاد | راہُل گاندھی ، پرینکا گاندھی | ||||||
خاندان | نہرو گاندھی خاندان | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ کیمبرج | ||||||
پیشہ | سیاست دان [9] | ||||||
مادری زبان | اطالوی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اطالوی ، ہندی [10][11]، انگریزی [10]، فرانسیسی [11]، ہسپانوی [11] | ||||||
IMDB پر صفحہ | |||||||
درستی - ترمیم |
سونیا گاندھی (ولادت: 9 دسمبر 1946ء لوسیانا، اطالیہ) ایک اطالوی نژاد بھارتی سیاست دان، انڈین نیشنل کانگریس کی صدر اور نہرو گاندھی خاندان کی ایک رکن ہیں۔ ان کی شادی سابق وزیر اعظم بھارت راجیو گاندھی سے ہوئی۔ 1998ء میں ان کے شوہر کے قتل کے 7 برس بعد ان کو انڈین نیشنل کانگریس کا صدر بنایا گیا، اس عہدے پر وہ 19 برس (16 دسمبر 2017ء تک) رہیں۔ اسی عرصہ میں کانگریس بھارتی سیاست میں مرکزی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی۔[ا]
ان کی ولادت ویچینسا کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک مسیحی کاتھولک کلیسیا خاندان میں ہوئی۔ علاقائی اسکول میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمبرج چلی گئیں جہاں ان کی ملاقات راجیو گاندھی سے ہوئی۔ راجیو سے ان کی شادی 1968ء میں ہوئی۔ بھارت میں منتقل ہونے کے بعد انھوں نے بھارتی شہریت حاصل کی اور اپنی ساس اندرا گاندھی کے ساتھ نئی دہلی میں رہائش اختیار کی۔ اندرا گاندھی اس وقت بھارت کی وزیر اعظم تھیں۔ ان تمام خاندانی اثر و رسوخ کے باوجود سونیا گاندھی نمود و نمائش اور عوام کی نظر سے دور ہی رہتی تھیں۔ حتی کہ اس وقت بھی جب ان کے شوہر بھارت کے وزیر اعظم تھے۔
شوہر راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سونیا گاندھی کو کانگریس کے ارکان نے جماعت میں مدعو کیا اور منصب صدارت کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا۔ 1997ء میں انھوں نے سیاست میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اورتاحال وہ سیاست میں سرگرم ہیں۔ 1998ء میں ان کو صدر انڈیں نیشنل کانگریس بنایا گیا۔ انھوں نے جماعت کی صدارت کے اس انتخاب میں جیتیندر پرساد کو شکست دی تھی۔[ب] ان کی صدارت میں کانگریس 2004ء میں حکومت میں آئی۔ حالانکہ یہ اتحادی حکومت تھی جس میں مرکزی اور دائیں باوز کی جماعتیں شامل تھیں۔ یہ اتحاد متحدہ ترقی پسند اتحاد کہلایا۔ 2009ء میں دوبارہ اس اتحاد نے کامیابی حاصل کی اور گذشتہ کی طرح اس بار بھی سونیا گاندھی نے وزارت عظمی کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ حالانکہ انھوں نے نیشل اڈوائزری کونسل کی صدارت بحسن و خوبی انجام دی۔[پ]
اپنی سیاسی زندگی میں انھوں کئی منصوبے اور اڈوائزری کونسل بنائے جن میں حقوق پرمبنی منصوبے شامل ہیں جیسے 2005ء میں قانون حق معلومات، تحفظ کھانا کا قانون اور 2005ء ہی میں ایم جی نرے گا وغیرہ کے قوانین منظور کرائئے۔ بوفورس سکینڈل اور نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ ان کا غیر ملکی ہونا بھی بحث اور تنقید کا موضوع رہا ہے۔[ت] یو پی اے حکومت کے دوسرے نصف میں صحت کے مسائل کی وجہ سے سونیا گاندھی کی سیاست میں فعالیت کم ہو گئی اور 2017ء میں انھوں نے یو پی اے کی صدارت سے بھی استعفی دے دیا۔ لیکن جماعت کی پارلیمانی کمیٹی کی صدر بنی رہیں۔ حالانکہ انھوں نے کبھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں سنبھالا مگر ان کو ملک کی سب سے طاقتور سیاست دان مانا جاتا رہا ہے۔ اور اکثر ان کو دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔[ٹ]
ابتدائی حالات
[ترمیم]سونیا مائنو [30] کی ولادت 9 دسمبر 1946ء کو سٹیفانو اور پاولا ماینو کے گھر ویچینسا، وینیٹو، اطالیہ کے 30 کلومیٹر دور لوزیانا نامی گاؤں میں ہوئی۔[31][32] ان کا بچپن تورینو کے قریب اورباسانو نامی قصبہ میں گذرا اور انھوں نے کاتھولک کلیسیا مذہب اختیار کیا۔ انھوں نے کاتھولک اسکول میں ہی بنیادی تعلیم حاصل کی ، ان کی بچپن کی ایک استادہ سسٹر ماریہ ان کے بارے میں کہتی ہیں “ وہ بچپن سے ہی محنتی لڑکی تھی جو اتنا ہی پڑھتی تھی جتنی ضرورت ہوتی تھی۔“ [30]
اسٹیفانو اوربیسانو میں ایک معمار تھے۔[33] انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ساتھسوویت افواج کے خلاف جنگ لڑی تھی۔وہ بینیٹو موسولینی اور نیشنل فاسسٹ پارٹی کے بہت وفادار تھے۔[33] سونیا کی بڑی بہن کا نام نادیہ نام تھا۔ ان کے والد کی وفات 1983ء میں ہوئی۔ سونیا کی بہنیں ہیں جو ماں کے ساتھ اوربیسانو میں مقیم ہیں۔[34]
13 سال کی عمر میں سونیا کا اسکوم مکمل ہو گیا؛ ان کے حتمی رپورٹ کارڈ درج ہے“ ذہین، محنتی اور ----ہائی اسکول میں اساتذہ کا نام روشن کریں گی۔ “ان کو ہوائی جہاز مضیف بننے کا شوق تھا۔[30] 1964ء میں کیمبرج میں انھوں نے انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیل ایجوکیشنل ٹرسٹ میں داخلہ لیا۔ اس کے اگلے ان کی ملاقات ایک مطعم میں راجیو گاندھی سے ہوئی جہاں وہ پارٹ ٹائم بطور ویٹر کام کررہی تھیں۔ اس وقت ان کا داخلہ جامعی کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج، کیمبرج انجینیرنگ میں ہو گیا تھا۔[35] اس حوالہ سے ٹائمز لندن خبر دیتا ہے “ محترمہ گاندھی 1965ء میں کیمبرج کے ایک زبان کے اسکول میں 18 سال کی طالبہ تھیں جہاں ان کی ملاقات ایک خوبصورت انجیرنگ کے طالب علم سے ہوئی“ [36] دونوں نے 1965ء میں شادی کرلی، ان ی شادی ہندو رسم و رواج کے مطابق ہوئی اور اس کے بعد وہ اپنی ساس اور وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ رہنے کے لیے بھارت منتقل ہوگئیں۔و272 [37]
سونیا گاندھی کو دو اولادیں ہوئیں۔بیٹا راہل گاندھی 1970ء میں جنمے اور بیٹی پرینکا گاندھی کی پیدائش 1972ء میں ہوئی۔ نہرو گاندھی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود سونیا اور راجیو نے سیاست سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا۔ راجیو بحییثیت پائلٹ ایک طیارہ کی کمپنی میں کام کرتے تھے جبکہ سونیا نے خاندان کی دیکھ ریکھ کی۔ انھوں نے اپنی ساس اندرا گاندھی کے ساتھ کافی عرصہ گزارا۔ راجیو نے ا982ء میں سیاست میں قدم رکھا جب ان کے بڑے بھائی سنجے گاندھی کی 23 جون 1977ء کو ایک طیارہ حادثہ میں وفات ہو چکی تھی۔ سونیا اس کے بعد بھی خاندان میں مشغول رہیں اور عوام کی نظروں سے دور رہیں۔[38]
سیاسی سفر
[ترمیم]وزیر اعظم کی اہلیہ
[ترمیم]بھارت کی عوامی زندگی میں دخل اندازی اس وقت شروع ہوئی جب اندرا گاندھی کی وفات ہوئی اور راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے۔ بحیثیت اہلیہ وزیر اعظم انھوں نے سرکاری مہمانوں کی ضیافت کی اور ان کے ساتھ سرکاری اسفار پر گئیں۔[39] 1984ء میں انھوں نے اپنے شوہر کی سالی مینکا گاندھی کے خلاف مہم میں حصہ لیا جو امیٹھی میں راجیو گاندھی کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ دفتر مین راجیو گاندھی کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد بوفورس اسکینڈل سامنے آیا، ایک اطاوی تاجر اوٹاویو قواٹروچی کا نام بھی سامنے آیا جو سونیا گاندھی کا دوست بتایا جاتا تھا اور ا س کو وزیر اعظم کے رسمی گھر تک رسائی حاصل تھی۔[40] بی جے پی نے یہ الزام لگایا کہ ووٹر لسٹ میں ان کا نام شہریت لینے سے قبل ہی آگیا تھا۔[41][42] سابق کانگریس رہنما اور سابق صدر بھارت پرنب مکھرجی کا کہنا ہے کہ محترمہ سونیا گاندھی نے 27 اپریل 1983ء کو اطلاوی سفارت خانہ کو اطالوی پاسورٹ جمع کروادیا تھا۔ 1992ء تک اطالوی قانون دوہری شہریت کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اسی لیے 1983ء میں بھارتی شہریت لینے کے بعد انھوں نے خود ہی اطالوی شہریت کھو دی تھی۔[43]
صدر کانگریس
[ترمیم]1991ء میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سونیا گاندھی نے وزیر اعظم بننے سے منع کر دیا تھا تب پارٹی نے پی وی نریسہماراؤ کو پارٹی کا لیڈر اور وزیر اعظم بنا دیا۔ اگلے چند برسوں تک کانگریس پر قسمت مہربان نہیں رہی کیونکہ لگاتار انتخابات میں شکست مل رہی تھی اور موجودہ صدر سیتارام کیسری کے خلاف متعدد سینیر لیڈر جیسے مادھو راو سندھیا، راجش پائلٹ، نارائن دت تیواری، ارجن سنگھ، ممتا بنرجی، جی کے موپانار، پی چدمبرم اورجینتی نٹراجن نے محاذ کھول دیا تھا اور ان میں سے کئی نے تو پارٹی ہی چھوڑ دی تھی اور اس طرح کانگریس کئی پارٹیوں میں بٹ گئی۔[44]
پارٹی کی خستی حالی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے بحیثیت ایک عام رکن انھوں نے 1997ء کلکتہ کے اجلاس میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1998ء مٰں پارٹی کی صدر بن گئیں۔[45][46]
مئی 1999ء میں پارٹی کے تین سینئر لیڈر شرد پوار، پی اے سنگما اور طارق انور نے ان کے وزیر اعظم بننے کے حق کو چیلینج کیا کیونکہ وہ ہند نذاد نہیں تھیں، جوابی طور پر سونیا نے استعفی کی پیشکش کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تینوں کو پارٹی سے بے دخل کر دیا گیا اور انھوں نے راشٹروادی کانگریس پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت تشکیل دی۔[47] 1999ء میں وہ بیلاری، کرناٹک اور امیٹھی انتخاب لڑیں۔ دونوں جگہ ان کو کامیابی ملی مگر انھوں نے اپنے لیے امیٹھی کو منتخب کیا۔[48] بیلاری سے انھوں نے بی جے پی کی بہت سینئر لیڈر ششما سوراج کو چکست دی تھی۔[49]
لیڈر حزب اختلاف
[ترمیم]1999ء میں 13ویں لوک سبھا میں ان کو قائد حزب اختلاف چنا گیا۔[50] جب اٹل بہاری واجپائی کے زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت بنی تو سونیا گاندھی کو لیدر حزب اختلاف چنا گیا۔ انھوں نے اپنے اس عہدہ کا استعمال کرتے ہوئے 2003ء میں این ڈی اے کی حکومت کے خلاف نو کانفیڈینس موشن کا اعلان کیا۔[51]
2004ء کے عام انتخابات اور اس کے بعد
[ترمیم]2004ء کے عام انتخابات میں سونیا گاندھی نے قومی سطح پر مہم شروع کی اور این ڈی اے کے ‘‘انڈیا شائننگ‘‘ اعلان کے جواب میں عام آدمی کا نعرہ دیا۔ انھوں نے بی جے پی پر ضرب لگاتے ہوئے سوال کیا کہ انڈیا کس کے لیے چمک رہا ہے۔ انتخابات میں رائے بریلی نششت سے اپنے سب سے نزدیکی حریف سے ان کو 200,000 کے فرق سے جیت حاصل ہوئی [52]این ڈی اے کی اس غیر متوقع شکست کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ اگلی وزیر اعظم ہوں گی اور 16 مئی کو بالاتفاق 15 جماعت کے اتحاد کی صدارت کا ذمہ ان کو سونپ دیا گیا اور یہ اتحاد متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کہلایا۔
شکست خوردہ این ڈی اے نے ان کے غیر ملکی ہونے کا الزام لگایا اور بہت واویلا مچایا۔ ششما سوراج نے تو یہاں تک کہ دیا کہ اگر سونیا وزیر اعظم بنیں تو وہ سر منڈوا لیں گی اور ریت پر سوئیں گی۔[53]
این ڈی اے نے دعوی کیا تھا سونیا گاندھی کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کے لیے قانونی دلائل موجود تھے۔[54] انھوں نے دلیل کے طور پر ایکٹ 1955ء کے جزء 5 کا حوالہ دیا مگر بھارتی عدالت عظمیٰ نے تمام دلائل کو مسترد کر دیا۔[42][55]
صدر یو پی اے
[ترمیم]23 مارچ 2006ء کو انھوں نے آفس آف پرافٹ تنازع کے پیش نظر لوک سبھا سے استعفی دے دیا اور ساتھ ہی نیشل ایڈوائزری کونسل سے بھی سبکدوش ہوگئیں۔ اسی سال حکومت آفس آف پرافٹ پر ایک بل پیش کرنے جا رہی تھی۔ 2006ء میں دوبارہ رائے بریلی سے 400,000 کے فرق سے کامیاب ہوئیں۔[56][57] نیشل ایڈوائزری کونسل اور یو پی اے کی صدر ہونے حیثیت سے انھوں نے قومی دیہی ملازمت گارنٹی قانون 2005ء اور قانون حق معلومات، 2005ء کو قانونی شکل دینے میں اہم کردار نبھایا۔ [58][59] 2 اکتوبر 2007ء کو، موہن داس گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر، جو عالمی یوم عدم تشدد کے طور پر منایا جاتا ہے، انھوں نے اقوام متحدہکو خطاب کیا۔ 15 جولائی 2007ء کو اقوام متحدہ نے 2 اکتوبر کو عالمی یوم عدم تشدد کے طور پر منانے کا قانون منظور کیا تھا۔[60] ان کی زیر قیادت 2009ء میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کو فیصلہ کن جیت ملی اور اکیلی کانگریس کو 206 نشستیں ہاتھ لگیں۔ منموہن سنگھ وزیر اعظم منتخب کیے گئے۔[61] اور سونیا گاندھی تیسری بار رکن پارلیمان بنیں۔[62][63]
2013ء میں وہ لگاتار 15 برسوں تک کانگریس کی صدارت کرنے والی پہلی صدر بن گئیں۔[64] اسی سال سونیا گاندھی نے عدالت عظمی کے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کی تائید پر اظہار ناراضی جتایا اور ایل کی بی ٹی کے حقوق کی تائید کی۔[65] 2014ء کے عام انتخابات میں رائے بریکی کی نششت ان کے ہی نام رہی [66] البتہ کانگریس اور یو پی اے نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کیا جہاں کانگریس کو محض 44 اور یو پی اے کو کل ملا کر 59 نششتیں مل پائیں۔[67][68][69] جب راہل گاندھی کے بارے خبریں آرہی تھیں کہ وہ کانگریس کے صدر بن سکتے ہیں، بھارتیہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتارام ییچوری نے سونیا کو ان پر ترجیح دی۔[70] 16 دسمبر 2017ء کو راہل نے کانگریس کے 49 ویں صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا۔[71][72]
2016ء کے بعد وہ سیاست سے الگ ہو گئی تھیں مگر 2018ء کے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں انھوں نے انتخابی مہم میں حصہ لیا اور بیجاپور میں ریلی سے خطاب کیا اور وہاں کانگریس کو 5 میں 4 نششتوں پر کامیابی ملی اور کرناٹک میں وہ دوسری بری جماعت بن کر ابھری۔[73][74] انتخابات سے قبل جنتا دل ( سیکولر) کے ساتھ اتحاد بانے میں انھوں نے اپنا کردار ادا کیا۔[75] 2019 کے انتخابات میں کانگریس کی کراری شکست کے بعد راہل گاندھی نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفی دے دیا، جس کے بعد 10 اگست 2019ء کو کانگریس کی عاملہ نے سونیا گاندھی کو ایک بار پھر عہدہ صدارت پر فائز کر دیا اور اس طرح وہ ایک بار پھر سرگرم سیاست میں اتر گئیں ۔
ذاتی زندگی
[ترمیم]سونیا گاندھی اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے راجیو گاندھیکی بیوہ ہیں۔ ان کی دو اولادیں راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی ہیں۔ مارچ 2013ء میں دی گارڈین نے انھیں 50سالہ افراد میں سب سے اچھے ملبوسات استعمال کرنے والوں کی فہرست مین جگہ دی۔[76] بھارت کے عام انتخابات، 2014ء کے حلف نامہ میں انھوں نے بتایا کہ ان کی کل جمع پونجی 92.8 ملین روپئے ہے۔واضح ہو کہ گذشتہ انتخابات سے ہی 6گنا زیادہ تھا۔[77]
حوالہ جات
[ترمیم]حواشی
[ترمیم]- ↑ Sources describing Gandhi's advocacy for a center-left position and the party's reaffirmation to the Ideology.[12][13][14][15]
- ↑ Sources describing Gandhi's initial reluctance and eventual election.[16][17][18]
- ↑ Sources describing Gandhi's leadership of the UPA and declining the premiership.[19][20][21][22]
- ↑ Sources discussing the welfare schemes and controversies.[23][24][25][26]
- ↑ Sources discussing the listing.[27][28][29]
مآخذ
[ترمیم]- ↑ Members : Lok Sabha — اخذ شدہ بتاریخ: 13 ستمبر 2021
- ^ ا ب https://eci.gov.in/files/category/97-general-election-2014/
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/119433109 — اخذ شدہ بتاریخ: 26 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Sonia-Gandhi — بنام: Sonia Gandhi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/gandhi-sonia — بنام: Sonia Gandhi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000022512 — بنام: Sonia Gandhi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ تاریخ اشاعت: 14 فروری 2024 — Opinion: Sonia Gandhi chose Rajasthan fort to fortify 10, Janpath — اخذ شدہ بتاریخ: 6 اگست 2024
- ↑ General Election 2014 — Election Commission of India
- ↑ https://web.archive.org/web/20190820105457/https://eci.gov.in/files/category/97-general-election-2014/ — سے آرکائیو اصل فی 20 اگست 2019
- ↑ https://www.theglobalist.com/meet-indias-sonia-gandhi/
- ↑ https://www.washingtonpost.com/archive/lifestyle/1985/06/11/sonai-gandhi-assuredly/91f490a3-bafd-41a3-a9b7-4478227d7cce/
- ↑ "Sonia Gandhi retires as Congress president, to remain active in politics"۔ انڈین ایکسپریس۔ 15 دسمبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2017
- ↑ Neerja Chowdhary (16 دسمبر 2017)۔ "As Sonia Gandhi makes way"۔ انڈین ایکسپریس۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2017
- ↑ Aurangzeb Naqshbandi (16 دسمبر 2017)۔ "Sonia Gandhi's 19 years as Congress president: From husband Rajiv's death to son Rahul's elevation"۔ ہندوستان ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2017
- ↑ Rina Chandra (14 اپریل 2009)۔ "Sonia Gandhi keeps Congress hopes alive in India polls"۔ روئٹرز۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2017
- ↑ Bernard Weinraub (24 مئی 1991)۔ "Assassination In India; Sonia Gandhi Declines Invitation To Assume Husband's Party Post"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2014
- ↑ "Sonia Gandhi re-elected Congress President"۔ آؤٹ لک۔ 25 مارچ 2005۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2017
- ↑ "Sonia Gandhi Biography"۔ Elections in India۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑
- ↑ "Fourth time in a row, Sonia Gandhi is Congress chief"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 4 ستمبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2014
- ↑ Simon Robinson۔ "India's Most Influential"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017
- ↑ "Sonia: and yet so far"۔ دی اکنامسٹ۔ 20 مئی 2004۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017
- ↑ Aruna Roy (15 دسمبر 2017)۔ "Movements and governments"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2017
- ↑ "End of the longest regency"۔ آؤٹ لک۔ 4 دسمبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017
- ↑
- ↑ Radhika Ramaseshan (30 اگست 2002)۔ "BJP sees Gujarat ammo in Sonia origins"۔ The Telegraph۔ Calcutta, India۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 فروری 2010
- ↑ CL Manoj (13 اکتوبر 2017)۔ "The Sonia Gandhi years and what Rahul Gandhi can learn"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017
- ↑ Bruce Riedel (24 جون 2012)۔ "Sonia Gandhi Health Mystery Sets India Leadership Adrift"۔ The Daily Beast۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017
- ↑ Richard Sandbrook، Ali Burak Güven (1 جون 2014)۔ Civilizing Globalization, Revised and Expanded Edition: A Survival Guide۔ SUNY Press۔ صفحہ: 77–۔ ISBN 978-1-4384-5209-8
- ^ ا ب پ Vera Schiavazzi (17 جنوری 2005)۔ "Sonia Gandhi: The Maino girl who kept her tryst with destiny in India"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2017
- ↑ "Pictures from the book-biography "The Red sari" by Javier Moro"۔ Radio Popolare۔ 28 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2011
- ↑ "Sonia Gandhi, dalla piccola Lusiana all'India ecco il romanzo di una donna speciale"۔ Il Giornale di Vicenza۔ 5 Oct 2009۔ 14 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب Jawid Laiq (23 فروری 1998)۔ "Meeting Mr Maino"۔ آؤٹ لک۔ 26 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولائی 2013
- ↑ Italy heralds 'first woman PM' آرکائیو شدہ 6 مارچ 2016 بذریعہ وے بیک مشین; retrieved 18 جولائی 2007.
- ↑ Alex Perry (17 مئی 2004)۔ "The Sonia Shock"۔ Time۔ 4 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2009
- ↑ From waitress to world leader، Rediff، 17 مئی 2004
- ↑ "Profile: Sonia Gandhi"۔ بی بی سی نیوز۔ 16 مئی 2014۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2018
- ↑ V. Venkatesan (5 جون 1999)۔ "Citizen Sonia"۔ Frontline۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2014
- ↑ Rasheeda Bhagat۔ "Sonia Gandhi: Ordinary Italian to powerful Indian"۔ Thehindubusinessline.com۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2014
- ↑ Who is Quattrocchi? آرکائیو شدہ 23 اپریل 2016 بذریعہ وے بیک مشین Retrieved 23 مارچ 2007.
- ↑ "BJP accuses Sonia of flouting law"۔ The Indian Express۔ 12 مئی 1999۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2011
- ^ ا ب V Venkatesan (جون 1999)۔ "Citizen Sonia"۔ Frontline۔ 16 (12)۔ 22 اپریل 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2011
- ↑ "Citizenship: How to lose it?"۔ Trentini Nel Mondo۔ 7 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 فروری 2010
- ↑ "The Sitaram Kesri case: How dynasty trumped ethics | Latest News & Updates at"۔ Daily News & Analysis۔ 10 جولائی 2011۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2014
- ↑ "Sonia Gandhi Biography"۔ Elections in India۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑ "Sonia Gandhi re-elected Congress president, unopposed"۔ NDTV۔ 3 ستمبر 2010۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2014
- ↑ "India's Congress Party rallies for Sonia Gandhi"۔ CNN۔ 17 مئی 1999۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 فروری 2010
- ↑ "A Congress bastion since 1952"۔ The Hindu۔ 28 فروری 2004۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑ "General election 1999, Candidate wise result"۔ Election Commission of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2012
- ↑ "Detailed Profile – Smt. Sonia Gandhi – Members of Parliament (Lok Sabha)"۔ Archive.india.gov.in۔ 02 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2014
- ↑ "LS to witness 26th no-confidence motion in its history"۔ The Times of India۔ 17 اگست 2003۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2014
- ↑ "Statistical Report on General Elections, 2004 to the 14th Lok Sabha" (PDF)۔ ECI۔ صفحہ: 308۔ 18 جولائی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑ Religioscope: India: politics of renunciation, traditional and modern – Analysis آرکائیو شدہ 16 اگست 2016 بذریعہ وے بیک مشین; retrieved 9 دسمبر 2011.
- ↑ Pioneer News Service۔ "Whose inner voice?"۔ CMYK Multimedia Pvt. Ltd۔ 9 اپریل 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2007
- ↑ "Sonia is Indian, rules SC"۔ The Times of India۔ 13 ستمبر 2001۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2014
- ↑ "Rae Bareli Lok Sabha"۔ Elections.in۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2014
- ↑ "Sonia strides to victory with record margin"۔ Rediff۔ 11 مئی 2006۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2019
- ↑ Employment Bill not a populist measure: Sonia آرکائیو شدہ 7 مارچ 2016 بذریعہ وے بیک مشین; retrieved 13 جولائی 2007.
- ↑ After RTI success, it's right to work آرکائیو شدہ 7 دسمبر 2013 بذریعہ وے بیک مشین; retrieved 13 جولائی 2007.
- ↑ "Sonia Gandhi raises disarmament issue at UN meet"۔ The Times of India۔ 2 اکتوبر 2007۔ 06 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اکتوبر 2007
- ↑ "India's new government sworn in"۔ BBC News۔ 22 مئی 2009۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑ "Hail to the chief: Sonia spurs Cong to new heights"۔ Hindustan Times۔ 11 مارچ 2013۔ 25 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑ "List of Winning candidates Final"۔ Election Commission of India۔ صفحہ: 8۔ 10 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2012
- ↑ "Sonia Gandhi completes 15 years as Congress president"۔ Livemint۔ 13 مارچ 2013۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2014
- ↑ "Disappointed over court ruling on gay rights: Sonia Gandhi"۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2013
- ↑ "Sonia Gandhi wins by over 3.52 lakh votes"۔ The Indian Express۔ 16 مئی 2014۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2014
- ↑ "After its worst defeat ever in Lok Sabha elections, what can Congress do to recover?"۔ Daily News & Analysis۔ 19 مئی 2014۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2014
- ↑ "The worst defeat: Where the Congress went wrong"۔ IBN Live۔ 17 مئی 2014۔ 21 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2014
- ↑ "Results"۔ NDTV۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2014
- ↑ "Sonia glue that keeps Oppn united; Rahul Gandhi will break it, Sitaram Yechury forecasts doom and gloom for BJP rivals"۔ Financial Express۔ 12 نومبر 2017۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2017
- ↑ "Rahul Gandhi takes over as Congress president"۔ 16 دسمبر 2017۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2017
- ↑ "Rahul Gandhi Takes Over As Congress Chief; New Start, Say Party Leaders"۔ این ڈی ٹی وی۔ 16 دسمبر 2017۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2017
- ↑ "Sonia Gandhi hits campaign trail, crosses swords with PM Modi in Karnataka"۔ Livemint۔ 17 مئی 2018۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 مئی 2018
- ↑ "Rahul Gandhi Takes Over As Congress Chief; New Start, Say Party Leaders"۔ این ڈی ٹی وی۔ 16 دسمبر 2017۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2017
- ↑ Aman Sethi (16 مئی 2018)۔ "Karnataka Election: How Deve Gowda Learnt To Stop Worrying And Trust The Congress (Again)"۔ ہف پوسٹ۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2018
- ↑ Jess Cartner-Morley، Helen Mirren، Arianna Huffington، Valerie Amos (28 مارچ 2013)۔ "The 50 best-dressed over 50s"۔ The Guardian۔ London۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2019
- ↑ "Sonia Gandhi files papers, shows six-fold hike in assets"۔ The Times of India۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2019
- 1946ء کی پیدائشیں
- 9 دسمبر کی پیدائشیں
- لوسیانا میں پیدا ہونے والی شخصیات
- اکیسویں صدی کی بھارتی خواتین سیاست دان
- اکیسویں صدی کی خواتین سیاست دان
- انڈین نیشنل کانگریس کے سیاست دان
- انڈین نیشنل کانگریس کے صدور
- بقید حیات شخصیات
- پندرہویں لوک سبھا کے اراکین
- تیرہویں لوک سبھا کے ارکان
- چودہویں لوک سبھا کے ارکان
- خواتین قائدین حزب اختلاف
- رہنماہان حزب اختلاف (بھارت)
- سترہویں لوک سبھا کے ارکان
- سرطان سے بچ جانے والی شخصیات
- سولہویں لوک سبھا کے اراکین
- لوک سبھا اراکین از اترپردیش
- نہرو گاندھی خاندان
- وزرائے اعظم بھارت کے شریک حیات
- ہندوستانی رومی کاتھولک شخصیات
- اکیسویں صدی کے بھارتی سیاست دان
- لوک سبھا کی خواتین ارکان
- بیسویں صدی کے بھارتی سیاست دان
- بیسویں صدی کی بھارتی سیاست دان خواتین
- اتر پردیش سے انڈین نیشنل کانگریس کے سیاست دان
- بھارت کے وطن گیر شہری