دیودوت سوتر جو سلوقی سلطنت کے ساتراپ باختر کا صوبہ دار تھا، نے آنتیوخس دوم کی وفات کے بعد جو تیسری جنگ شام، بطلیموسی مصر و سلوقی سلطنت میں چھڑ گئی، کا فائدہ اٹھا کر اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے سلطنت یونانی باختر قائم کیا جو یونانیائی تہذیب کا سب سے مشرقی حصہ تھا-یہ 250 قبل از مسیح سے لے کر 125 قبل از مسیح تک باختر اور وسطی ایشیا میں سغد کے علاقوں پر حکومت کرتے رہے- اس سلطنت کو ولایت بلخی بھی کہا جاتا ہے- جوں جوں یہ ہندوستان پر حملے کرتے اور علاقے فتح کرتے رہے توں توں یہ وقت کے ساتھ ساتھ شمالی ہندوستان میں ہی زیادہ وقت گزارنے لگے اور 180 قبل از مسیح میں مملکت يونانی ہند قائم کی جو 10ء کے ارد گرد تک رہی-
2 صدی قبل مسیح کے درمیان میں، ساکا اور پھر یوہژی، جو چین کی سرحد کی طرف سے ایک طویل منتقلی کے بعد وسط ایشیا آئے تھے، شمالی باختر و سغد پر حملہ آور ہو ئے- ہم فرض کر سکتے ہیں کہ سلطنت یونانی باختر کا آخری بادشاہ ہلیاکل اس حملے کے دوران لڑائی میں ہلاک کیا گیا تھا اور مغربی تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ پارتھیا کے ایرانی بھی سلطنت یونانی باختر کے خلاف یوہژی و ساکا کے باری باری حمایتی و اتحادی بنے- تاریخی طور پر ہندو کش کے پہاڑ باختر پر سنگین اور بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں کو روکنے میں قدرتی مدد دیتے، مگر ملند اعظم کی وفات کے بعد يونانی ریاستوں کے آپسی جھگڑوں کی وجہ سے نہ صرف شمال مشرقی سرحد سے توجہ ہٹی بلکہ لڑائیوں نے انھیں کسی بڑے فریق کا سامنا کرنے کے لائق نہیں چھوڑا- چنانچہ 130 قبل مسیح میں ساکا یا/اور پھر یوہژی نے پارتھیا کی مدد سے سلطنت یونانی باختر کو فتح کر لیا - باختر و سغد کے علاقے کو یوہژی کی وجہ سے تخارستان کا نام پڑ گیا- ان حملوں کی بدولت اور يونانی ریاستوں کے آپسی جھگڑوں نے يونانیوں کو شمالی ہندوستان میں دھکیل دیا جہاں وہ مزید ایک صدی تک مملکت يونانی ہند پر حکومت کرتے رہے-
یوہژی قبائل کے خانہ بدوشوں نے وقتاً فوقتاً حملوں کے ذریعے سلطنت یونانی باختر کے آخری بادشاہ ہلیاکل کو جنگ میں شکست فاش کیا اور باختر و سغد پر قابض ہوئے اور علاقے کا نام تخارستان پڑ گیا-