Khoodari - Article No. 1058

Khoodari

خوداری - تحریر نمبر 1058

بھکاری نہیں ہوں محنت کرتا ہوں۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ اماں کہتی ہیں جو سوال کرتا ہے۔ قیامت کے روز اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا

بدھ 13 دسمبر 2017

تنزیلہ یوسف:
صاحب کھولنے Ù„Û’ لو“Û” بچوں Ú©Û’ لئے پیزا Ù„Û’ کر جیسے ہی عمر پارکنگ میں Ú©Ú¾Ú‘ÛŒ گاڑی Ú©ÛŒ جانب بڑھا کھولنے بیچنے والا بارہ سے تیرہ سال Ú©ÛŒ عمر کا لڑکا تیزی سے اس Ú©ÛŒ طرف بڑھا۔ مگر میرے بچے تو بڑے ہیں وہ ایسے کھلونوں سے نہیں کھیلتے۔ عمر Ù†Û’ معذرت خواہانہ لہجے میں اس Ù„Ú‘Ú©Û’ Ú©Ùˆ انکار کیا۔ اچھا․․․․ ٹھیک ہے ØŒ آپ نہیں لیں Ú¯Û’ تو کوئی اور صاحب اپنے بچوں Ú©Û’ لئے Ù„Û’ جائیں Ú¯Û’Û”
“ اس Ú©ÛŒ آنکھوں Ú©ÛŒ Ú†Ù…Ú© یکدم ماند ہوئی مگر ساتھ ہی خود Ú©Ùˆ تسلی بھی دی۔ تم پڑھتے نہیں؟“ یکدم عمر Ú©Ùˆ اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ صاحب میں Ù¾Ú‘Ú¾ÙˆÚº گا تو میرے گھر میں چھوٹا بھائی اور بہن جو ہیں ان Ú©ÛŒ چھوٹی چھوٹی ضروریات کون پوری کرے گا؟“ وہ افسر دگی سے گویا ہوا۔

(جاری ہے)

'; document.getElementById("div-gpt-ad-outstream-wrap").innerHTML = '
'; document.getElementById("div-gpt-ad-1x1-wrap").innerHTML = '
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-outstream"); }); googletag.cmd.push(function() { googletag.display("div-gpt-ad-1x1"); });
'; googletag.cmd.push(function() { googletag.display('gpt-middle-banner'); }); }

میں اور اماں کام کرتے ہیں۔ اماں گھروں میں کام کرتی ہیں ۔ میں دن میں ورکشاپ پر کام کرتا ہوں اور رات کو ادھر کھولنے بیچتا ہوں۔

میرا چھوٹا بھائی اور بہن سکول جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری طرح نہ ہوں Ù¾Ú‘Ú¾ Ù„Ú©Ú¾ کر بہت Ø¢Ú¯Û’ جائیں ØŒ اسی لیے میں اور اماں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ابا Ú©Ùˆ Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ سال فالج کا اٹیک ہوا تھا تب سے وہ بستر پر ہیں۔“”اچھا یہ رکھ لو“ عمر Ù†Û’ بٹوے سے Ú©Ú†Ú¾ روپے نکال کر اسے دینا چاہے۔ بھکاری نہیں ہوں محنت کرتا ہوں۔ کسی Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ ہاتھ نہیں پھیلاتا۔
اماں کہتی ہیں جو سوال کرتا ہے۔ قیامت Ú©Û’ روز اس Ú©Û’ چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں لوگوں Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ ہاتھ پھیلاؤں اور قیامت Ú©Û’ دن میرے چہرے پر گوشت نہ ہو“ عمر Ú©ÛŒ بات سے جیسے اس Ú©ÛŒ خوداری Ú©Ùˆ تازیانہ لگا تھا۔ ارے یا تم تو برا مان گئے۔ اچھا یہ بتاؤ ایک کھلونا کتنے کا ہے؟۔سو روپے کا Û” مگر ابھی تو آپ لینے سے انکار کررہے تھے۔ عمر Ú©Ùˆ اس کا یہ انداز اچھا لگا۔
یا تمہارے کھلونے بک جائیں اور تمہیں کیا چاہیے؟ یہ سارے دس ہیں صاحب“Û” یہ لو ان سب Ú©Û’ پیسے Û” ایک کھلوانا مجھ دو میرے گھر کام والی آتی ہے اس Ú©Û’ بیٹے Ú©Ùˆ دوں گا۔ باقی تم اپنے گھر Ú©Û’ آس پاس Ú©Û’ بچوں میں بانٹ دینا۔ عمر Ù†Û’ اسے اپنا اردہ بتایا۔ وہ لڑکا چلا گیا مگر عمر Ú©Ùˆ گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیا۔ سوچ Ú©Û’ دریچے کھلتے گئے اُس Ú©Û’ ابو ایک فیکٹری میں ملازم تھے۔
عمر اس وقت آٹھویں جماعت میں تھا جب اس کے ابو کی دونوں ٹانگیں ایک حادثے میں ضائع ہوگئیں۔ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے ابو نے کبھی اس بات کو کمزوری بنا کرکسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ۔ گھر کے دروازے پر بچوں کے کھانے پینے کا سامان رکھ کر بیچنا شروع کردیا۔ امی لوگوں کے کپڑے سینے لگیں۔عمر سکول جانے سے پہلے سائیکل پرلوگوں کے گھروں میں اخبار دیتا ۔
سکول سے واپس آتا تو ٹیوشن پڑھنے والے بچے آجاتے۔ شام کو اپنی پڑھائی کرتا۔ یوں تینوں نے مل کر زندگی کی گاڑی چلانا شروع کردی۔ عمر نے ایم بے اے کرلیا تو اس کو ایک فرم میں نوکری مل گئی۔ امی نے اپنی بھانجی سے اس کی شادی کردی۔ آج اس کے دو بیٹے ہیں۔ جنہیں وہ محنت کرنے کی تلقین کرتا ہے اس کے امی ابو دونوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کا صبر ، لگن اور خودداری آج بھی عمر کے ہم قدم ہے جبھی آج اس لڑکے کو دیکھ کر اسے اچھالگا کہ آج بھی ایسے خوددار لوگ موجود ہیں۔ موبائل پر کال آرہی تھی جو اسے ماضی سے حال میں لے آئی۔ جی میرے بچو! بس آیا ہوں کچھ دیر میں ۔ عمر نے مسکراتے ہوئے بچوں کو کہا اور گاڑی پارکنگ سے نکال لی۔
Facebook Twitter Reddit Pinterest Whatsapp

Browse More True Stories

عقل مند شاگرد

Aqalmand Shagird

لالچی درویش

Laalchi Darwaish

قربانی کا مقصد

Qurbani Ka Maqsad

قسمت

Qismaat

جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے

Jhoot Kay Pawo Nh Hoty

جو کا دلیا

Jo Ka Daliya

علم کی شمع

Ilm Ki Shama

سونے کی باٹ

Sonay Ki Baat

دُکھ بھری زندگی

Dukh Bhari Zindagi

فرض کا قرض

Farz Ka Qarz

بند کمرہ

Band Kamra

نوکر کا علاج

Nokar Ka Elaaj