کچھ ادھورا سا

اتوار 13 فروری 2022

Hafsa Anwar

حفصہ انور

دس سال ایک طویل عرصہ ۔۔!!
ایک لمبی اڑان سے پہلے کے چند وعدے ۔۔!!
آج ماں جب میرے گھر مجھ سے ملنے آئیں تو ایک خاکی رنگ کا کارٹن اپنے ساتھ لائی یہ ڈبہ جو میں نے کبھی اسٹور میں پڑی زائد الماری کے پچھلے حصے میں چھپا رکھا تھا ۔۔، شاید تب محفوظ رکھنے کے لئے اس سے بہتر جگہ نہ تھی ، کبھی کبھی سوچتی ہوں کیسی عجیب بات ہے نا جن یادوں کو پنجرے میں پرو کر ہمیشہ سمیٹ کر رکھ لینا چاہتے ہوں انھیں ہی پھر سالوں سال پلٹ کر نہیں دیکھتے ۔

۔،
اس وقت ہم  ان منفرد من پسند یادوں کو خود سے باندھ کر رکھ رہے تھے کسے پتا تھا زندگی کے اگلے دنوں میں یہ ذہنوں سے ہی محو ہو جائیں گی دھندلی دھندلی سی پڑ جائیں گی !
کارٹن میرے کمرے کی میز پر بے سدھ پڑا تھا۔ میں خوش تھی مگر اداس بھی اس ڈبہ  کی پرانی جگہ میری طرح بدل دی گئی تھی ، اسکا گھر بدلا تھا مگر اداسی میری ذات کی بڑھ گئی تھی ۔

(جاری ہے)

۔،
خیر ماں میرے پاس میری امانت چھوڑ گئی تھیں ، رات آسمان پر تاروں کی چادر میں اندھیروں کا پنکھ پھیلائے بیٹھی تھی ، یہ اندھیرے کبھی گونگے نہیں ہوتے انکی ذبان کبھی بہت تلخ اور کبھی پر سکون ہوتی ہے ، اندھیرے تو رازوں سے بھرے ہوتے ہیں بس فرق اتنا ہے کہ یہ ہر ایک پر ایک کی داستان عیاں نہیں کرتے ، وگرنہ کس کھڑکی سے کس نے راہ تکتے رات گزاری ہے دن کے اجلاے میں یہ راز کھل جاتا ، گھر کی یاد میں کس نے تکیے پہ آنسوں بہائے ہیں کون  دور پردیس میں بیٹھے اپنے گھر کی خوشی بن دیکھے محسوس کرتے آہ بھرتے ضبط سے خاموش پڑ جاتے ہیں ، کس کی چوڑی ٹوٹی یا کون پگڑی پے خود کو مار بیٹھا ہے ، یہ اندھیرے بے وفا ہوتے تو سب پہ سب کے راز آشکار ہوتے ۔

۔، لیکن یا با وفا ہیں معصوم اور کرب ناک سے !
مگر میں نے اندھیرے بھرے آسمان کو پردے کی اوٹ میں ڈھک دیا تھا ، میری زندگی مجھ سے باوفا نا تھی میں کسی اور کی وفا پہ کہاں سے مان لاتی ، ڈبہ کھولنے سے پہلے میں اپنے ارد گرد کی چیزوں کو پرکھ لینا چاہتی تھی اور جب ! میں  نے  کمرے  کی دیواروں کو غور سے دیکھنا شروع کیا تب  محسوس ہوا جیسے یہ بولتی ہوں عجیب سی داستان ، جیسے اپنے اندر  انیک راز دفن کیۓ خاموش تماشائی بنی رہتی ہوں ، یہ میرے حق میں آواز نہیں اٹھاتی یہ بوڑھی ہو گئی ہیں اس بوڑھے چمگاڈر کی مانند جو دیوار کے عین اوپر کنارے سے لٹکتا حیاتی گزار رہا ہے ، کالا سا جسے دیکھ کے اب خوف نہیں آتا جو خود بھی بے زار سا آخری سہارے کو پکڑے رکھتا ہے میری طرح اسکی بھی روح بوڑھی ہو چکی ہے ، کمرے کے فرش پر  زرد پتے  بکھرے عجیب وحشت میں گھرے ہوۓ ہیں ۔

۔، جب انکا ساتھ انکی جڑوں نے چھوڑ دیا ، تو ان پتوں نے اپنے جیسا کوئی زرد کٹا ٹوٹا بکھرا سا سہارا ڈھونڈ لیا ، یہ اب میرے کمرے کے  فرش پر پڑے رہتے تھے ، کل رات جب پاؤں ان پر پڑ گیا تو ایسے  لگا میرے یہ دوست بھی مر گئے ان کی آواز ختم ہو چکی تھی ، یہ مجھے چھوڑے اکیلے ہی  سفر باندھ گئے!
پر وہ پتے میری ڈائری میں محفوظ ہو چکے ہیں زرد پتوں کے لئے زرد صفحوں والی ڈائری بہترین آرام گاہ ہے ، یہ وہ کاغذ تھے جنہیں جلتے دیکھ  جلوں کو مزید جلنے سے روک لیا گیا تھا ۔

۔، جن پر سیاہی خشک ہو کر مٹ چکی تھی ، یہ میری زندگی کی داستان پوری کی پوری نگل گئے تھے ۔، اب ان اوراق میں میرے پتوں کی قبر بن چکی ہے ۔!
بس ، اب ایک بوڑھی روح اپنے ساتھ ساتھ دیوار پر لٹکے چمگاڈر کی آخری آرام گاہ کے انتظار میں ہے ،
مجھے لگ رہا ہے میں الجھتی جا رہی ہوں میرے کمرے میں لفظوں کا طوفان بکھرا پڑا ہے جو ہر سمت سے مجھ پر اپنا  سحر پھونک رہا ہے ، کیا یہ نہیں جانتا کہ ۔

Û”!
ایک عرصے سے میرا قلم مفلوج  ہے یہ لفظوں کے  جالوں میں خود اپنا وجود بھی کھو گیا ہے ، یہ پرانی  مفصل کھڑکیوں سے جھانکنا چھوڑ گیا  ہے ، جہاں پر ان  مٹی ہلکی دھندلی کہانیاں سر گوشی نما آوازوں میں ہر لمحہ دہرائی جاتی تھی  جہاں پر تخیل سے لفظوں کی خلقت پروان چڑھتی تھی  یہ ان لمحوں میں اپنا سانس روک لیتا ہے ، کسی پنجرے میں قید ہو کر چابی موجوں کے حوالے چھوڑ دیتا ہے ، اسے کیوں محسوس نہیں ہوتا سمندر بھلا کب مان رکھتا ہے ، یہ ظالم تو سب نگل جاتا ہے ۔

۔، بیتے دنوں سے قلم اور میرے اندر کہیں مفصل بوڑھی روح مجھ سے روٹھ چکی ہے ۔۔، یہ اذیت رفتہ رفتہ میرا دل کھا رہی ہے ، آہ اب  اور نہیں یہ ڈبہ یونہی کسی کونے میں واپس رکھ رہی ہوں ، شائد آج اسکے عیاں ہونے کا دن نہیں!
لمبی اڑان سے پہلے کے چند وعدے بھی ادھورے ہیں بلکل اس کہانی کے قلم کار کی طرح ۔۔،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :