کچھ پل زندگی

منگل 14 ستمبر 2021

Hafsa Anwar

حفصہ انور

اسکے  چہرے پہ بے یقینی، ملال، دل چیر دینے کی تکلیف نما دکھ ،بے رحم  معاشرے کی بے رحمی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے ۔۔ جامد پڑتے احساسات سلب ہوتے حواس عنقریب کسی انہونی کے پیش خیمہ معلوم ہوتے تھے ۔۔۔،
لیکن کیا انہونی ہونا باقی تھی ۔۔!! جو  ہو چکا تھا۔۔!! اس سے ڈراؤنا یا تلخ اور ہو سکتا تھا ؟؟
ایک بینچ پر بیٹھے اب تو کمر اکڑتی محسوس ہو رہی تھی ۔

۔نا جانے کتنا وقت اور بیت جانا تھا ۔۔، گرج چمک ویران سیاہ پڑتے بادل بھی جیسے ہم راز تھے  یا اسکی تکلیف میں آنسو بہانے کو بے تاب سے تھے  ۔۔۔، کیا قسمت کی ستم ظریفی اور باقی تھی ۔۔؟ گھٹنوں میں سر دیے وقت طویل تر طویل ہوتا جا رہا تھا ۔ میں بینچ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا کب سے اس نو خیز کلی کو دیکھ رہا تھا نا جانے اسے کیسا دکھ تھا کون سی آفت اسے یخ بستہ دھند میں یہاں بیٹھنے پر مجبور کر رہی تھی  ۔

(جاری ہے)

میرے اندر تجسس رفتہ رفتہ دنگ مارتا مجھے ابھار رہا تھا ۔
ہنوز رونے کا شغل فرماتی پیاری لڑکی کیا ہوا ہے ؟ اکیلی بیٹھی ہو ؟ گھر نہیں جانا ؟ "گھر" اسکے منہ سے یہ ایک لفظ ادا ہوا تھا بس ایک نظر اس نے میری طرف دیکھا تھا ۔ بس وہی ایک لمحہ سرخ پڑتی  سیاہ ہلکوں میں گھری آنکھیں مانو جیسے کائنات تھم گئی ہو ۔گردش رک گئی ہو چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا ہو ۔

پھول کھلنا بھول کر ہوا کے رقص میں کوئی میٹھی سر گوشی کر رہے ہوں اور چپکے سے میرے دل میں محبت پنجے گاڑ چکی ہو محبت کا آسیب اپنی لپیٹ میں لے چکا ہو ۔ ہاد تم یہاں ؟  ایک دم سے فسوس بکھر گیا تھا ۔ میرے چہرے پر چونکنے پل پل حیران ہونے کے تاثرات واضح ہو رہے تھے ۔ کچھ دھندلی یادیں ماضی کے پنے میرے ذہن میں ابھرتے خیالوں کے جالے بنتے جا رہے تھے ۔

وہ مجھے ایئر پورٹ چھوڑنے آئ تھی کسی پیارے دوست کی طرح کسی ہم زاد کی طرح میری ہم راز تھی وہ یوں تو محبت نہیں تھی ہم میں مگر کچھ قاعدے الجھے الجھے سے تھے کچھ ورق خالی خالی سے تھے کچھ دل میں جگہ باقی سی تھی ۔ بس وہ آخری لمحہ تھا آخری ملاقات تھی ایک آخری یاد تھی ۔ پھر دوڑتی رفتار پکڑتی زندگی نا تھمی نا وقت ملا نا وقت نے وقت دیا زندگی کی الجھنیں اور کچھ پڑھنے کا نیا جنون زندگی کی ریس ، کچے پکے ڈگمگاتے راستے اور بس میں ، انجان شہر کی انجان راہوں نے شناشا  چہرے دھند کی لپیٹ میں  ذہن کی ان مٹی یادوں میں فقل کر دیے تھے ۔

ہانیہ میرے لبوں سے سر گوشی نما آواز نکلتی ہوا کے رقص میں گم سی ہو رہی تھی ۔ وہ رو رہی تھی جیسے کسی تنہا تنکے کو سہارا سا مل رہا تھا میرے پاس بیٹھی بس روتے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے ادا کرتی یہ وہ ہانی نہیں تھی جسے میں چھوڑ گیا تھا یہ تو کوئی خزاں کی رت معلوم ہوتی تھی ٹوٹی بکھری ویران اپنے اصل سے بہت پرے، ہولے سے لرزتی کپکپاتی اور اسکی آنکھیں جہاں  شوخ پن کا جہاں آباد ہوتا تھا وہ بلکل ویران تھیں جیسے کوئی قبر جس میں انیک راز دفن ہوں جیسے کوئی راستہ کانٹوں سے اٹا ہو یا کوئی منظر ڈوبتا ہو جہاں  زندگی ہار رہی ہوں  اور  لمحے تھم رہے ہوں ۔

انہیں ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو ادا کرتے وہ کسی ٹوٹی ڈال کی طرح بینچ کی ایک طرف ڈھلک گئی تھی ۔ ہسپتال کی راہ داری میں  کسی لٹے مسافر کی طرح سکتہ کی کیفیت میں بیٹھا محبت کی کونپل جو میرے اندر پھوٹتی وجود کو جکڑ رہی تھی وہی محبت امر ہونے سے پہلے ہی مجھے ہجر تھما رہی تھی ۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا ہانیہ دماغ کے کینسر کے آخری مرحلے میں ہے اس کے پاس زندگی کے چند ماہ ۔

۔، بامشکل چیخوں کا گلا گھوٹتا خود پر ضبط کے بند باندھتا کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح بیٹھا تھا جس کی زندگی چھن جانی ہو موت آ جانی ہو سانسیں رک جانی ہوں اور بندھن ٹوٹ جانا ہو ، میں ارادہ باندھ چکا تھا ہانیہ کو اسکی زندگی کی قلیل مدت میں بہت ساری خوشیاں دوں گا محبت کی کچھ یادیں اسکا احساس اپنے آس پاس ایک لمبی زندگی کے لئے کسی کندھے کی مانند ایک ان دیکھے سے سہارے کی طرح اسکے حصار کی لپیٹ میں گزار لوں گا ۔


گزرے وقت کی کوئی بری یاد اسکے پاس بھٹکنے نہیں دوں گا اپنے طور پر میں جان چکا تھا ہانیہ کے والدین حیات نہیں تھے اور اسکے خاندان کے دوسرے لوگ اسے بدکردار کہ کے ویران جنگل نما دنیا میں پھینک گے تھے ۔ جیسے تیسے میں ہانیہ کو نکاح کے لئے راضی کر چکا تھا وہ میرے نام لکھ دی گئی تھی ہانیہ ہاد کتنا پیارا نام تھا نا ہمارا ایک ساتھ مکمل ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہوں جیسے ۔

۔۔!! اور پھر ہماری زندگی کا ہر دن بہت حسین تھا گلاب کے گلدستوں سے صبح کا استقبال ہوتا دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتے بچپن کو جیتے یادیں سمیٹتے ہر شام سمندر کنارے ڈوبتے سورج کے منظر کو آنکھوں میں قید کرتے ، پاؤں کو چھوتی لہروں میں اٹھکلیاں کرتے ریت سے محبت کا گھر بناتے اور لہروں کو بہا لے جانے دیتے ، ایک دوسرے کے سنگ زندگی کو بھر پور جیتے محسوس کرتے ، کبھی کبھی بے بس ہوتا خود پر جبر کرتا جیسے زندگی کچلی جا رہی ہو ہر گزرتے دن میں قلیل وقت کا احساس دلاتی  میرا تمسخر اڑاتی ہو ۔

آج پھر اسی بینچ پر بیٹھے تتلیوں کو اڑتا دیکھتے رنگوں کو سراہتے میری جھولی میں بے ہوش ہو گئی تھی ۔ اور اذیت کی انتہا پتا کیا تھی ۔۔۔!! میری کل متاں بستر مرگ پہ لیٹی  جس کی سانسیں  پل پل اکھڑ رہی تھیں  ۔۔۔ جھٹکے سے جس کا آہیں بھرتا جسم زمین سے چار انچ اوپر کو اٹھتا زمین پہ پٹخنے کے انداز میں گرتا جا رہا تھا  ۔۔۔موت کا خوف مجھے  ناگ بنے ڈستا جا رہا تھا اور  گزری زندگی کا ایک ایک لمحہ آنکھوں میں کسی پہلی محبت کے پہلے تاثر کی طرح ذہن کے پردوں میں آنکھ مچولی سی کھیل رہا تھا ۔

  دل پھٹنے کے آخری دہانے پہ تھا آنکھوں سے بہتا ان دیکھا خون افشار کی مانند بھل بھل کرتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔ مدھم پڑتی سانسیں پل میں ڈولتی ڈوبتی لمحوں میں بڑھتی رفتار پکڑتی ایک دم سے جسم چھوڑ دینے کو بے تاب محسوس ہو رہی تھیں  ۔۔۔
اور پھر بے جان آنکھیں سانسوں کی دوڑ کو ٹوٹتا بکھرتا دیکھ رہی تھیں اور میں ساکت سا دعاوں کا ورد کرتا اسکی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا  اچانک  ہولے سے لرزتا وجود پل میں ساکت سا ہوگیا تھا اور  فقط خاموشی رہ گئی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :