استاد کی عزت‎

بدھ 10 جون 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

ایک قصہ سنا ہے کہی سے۔ جس میں ایک استاد اور شاگرد بیٹھے تھے ۔ استاد کو پیاس لگی ۔ لیکن پانی گرم تھا ۔ تو پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے برف لائی گئی ۔ لیکن برف کا ٹکڑا بڑا تھا ۔ برتن میں نہیں سما سکتا ۔ اسلئیے اس کو توڑنے کے لئے استاد اٹھا اور گھر سے ہتھوڑا یا کچھ اور لانے کے لئے ۔ لیکن جب وہ باہر گیا ۔ تو شاگرد نے ایک ہاتھ  سے وہ برف تھوڑ دیا ۔

لیکن تھوڑنے  کے بعد اسے احساس ہوا ۔ کہ میرا استاد ایک ہاتھ سے معذور ہیں ۔ وہ یہ دیکھے گا ۔ تو اسے احساس کمتری ہوگی ۔ اسلئیے وہ برف کو دیوار پر مارنے لگا اور دیوار خراب کر دیا ۔ جب استاد آیا اور دیوار دیکھا تو شاگرد پر بڑا غصہ ہوا ۔ اور آخری وقت تک وہ اسے بے وقوف سمجھتا رہا۔ لیکن شاگرد کے احترام کا یہ حال تھا ۔

(جاری ہے)

کہ زندگی بھر اس کو آحساس نہیں دلایا کہ میں بے وقوف نہیں بلکہ  جوان اور پہلوان تھا۔

ابن انشاء، اللہ  جنت الفردوس عطا فرمائے ۔ فرماتے ہے کہ ایک دن میں ٹوکیو کے ایک استاد کے ساتھ کالج یا یونیورسٹی میں کھڑا تھا ۔ جب وہاں سے شاگرد گزرتے تو چلانگ لگتے تھے ۔ میں حیران تھا کہ یہ کیا ہے۔ آخر میں نے اس  استاد سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا وجہ ہے ۔ کہ سارے لوگ تو ادھر سے صحیح چل کے آتے ہیں لیکن یہاں اکے چلانگیں لگنا شروع کرتے ہیں ۔

اس نے کہا ہمارے ہاں استاد کی بہت عزت کی جاتی ہیں ۔ یہاں پہنچ کر وہ اس لیے چلانگیں لگا رہے ہیں کہ کہیں استاد کے سایے پر پاؤں نہ لگ جائے ۔ یہ ہوتی ہیں ۔ ترقی یافتہ اور مہذب قوم کی عادات اور اخلاق ۔ ہم زندگی میں ناکام ہی اسلئیے ہیں کہ ہم اپنے استاد سے خود کو بڑا افلاطون سمجھتے ہیں ۔ اور اگر کسی اچھے پوسٹ پر تعیناتی ہوئی ۔ تو پھر تو استاد کی کمزوریوں کو محفل میں بیان کرتے ہیں ۔

کہ فلاں استاد کو یہ نہیں آتا تھا ۔ وہ نہیں آتا تھا ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ا، ب، ت اور a b c ہم کو ان لوگوں نے سکھائی تھی ۔ ٹھیک ہیں استادوں میں بھی تھوڑے بہت کمزوری ہوگئی ۔ لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہونگے ۔ باقی میں نے زندگی میں جتنے بھی استاد دیکھے ۔ چاہئے دینی تعلیم کا ہو یا دنیاوی کا  سب میں اپنے شاگردوں کے لیے محبت اور تڑپ دیکھی۔

شاگرد کی کامیابی پر سینہ تان کے بھولتا ہے یہ میرا شاگرد ہے  ۔ بہت ہی خوش اخلاق اور ذہین ۔ دوستوں اپنے استادوں کی عزت کرو کیونکہ جو اپنے استاد کو گھوڑے پر سوار کرتا ہے اور خود لگام پکڑ کے پیدل چلتے ہیں میرا اللہ اسے امام غزالی رحمت اللہ علیہ بناتا ہیں اور جو استاد کی عزت بھول جاتا ہے ۔ تو زمانہ بھی اسے بھولنے میں دیر نہیں لگاتی۔
مجھے اپنے استادوں پر فخر ہے  اور چاہئے میں جتنا بھی پڑھ لکھ لو ، میں پھر بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ کیونکہ یہ لکھنا، پڑھنا مجھے میرے استادوں نے سکھایا ۔۔
لکھنے پڑھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :