تلاش سوال

جمعرات 10 فروری 2022

Arshad Hussain

ارشد حسین

چاہت ، آرزو، ارمان، خواہش 'خواب، تمنا پورا ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ ہر سوال کا جواب ہوتا ہے۔ وہ سوالات چاہیے اعظیم شخصیت امام غزالی کے ہو یا سائنس کے دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے نیوٹن اور بہت سے دوسرے  عظیم شخصیات یا پسماندہ گاؤں میں رہنے والے ہم جیسے کم علم ، جواب ضرور مل جاتے ہیں ۔ کوئی جواب کے لیے مرشد کے انتظار میں رہتا ہے۔

تو کوئی خود کو کھوجتا رہتا ہے۔ بس اہم بات ہوتی ہے سوالات ، تلاش، پیاس ، کچھ کرنے کی لگن ، اگے نکلنے کا جذبہ، اور مقابلے کا حوصلہ، کسی کو ان خوابوں کی تکمیل ، اور  سوالات کے جوابات  کے لئے، چھ ، چھ کلومیٹر  پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ مرشد کو گھوڑے ،  گاڑی پر سوار کر کے خود مٹی کے  ساتھ مٹی بننا پڑتا ہے۔ اور کوئی سر جھکا کے  فیض یاب ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اور کوئی آنسوؤں کے سمندر پار کر کے بھی محروم رہ جاتا ہے۔
خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے، زندگی میں اگے بڑھنے کے لیے جو اصول اپنائے جاتے ہیں، جو راہ اختیار کرنی پڑتی ہے اس میں ادب اور احترام ایک نمبر پر ہے ۔ دنیا کے عظیم شخصیات، عظیم استاد اپنے وقت کے عظیم اساتذہ کے عظیم شاگرد ہوا کرتے تھے۔ زندگی میں کامیاب شخص، حادثاتی کامیاب نہیں اصل کامیاب شخص نہایت قابل قدر اور قابل احترام ہوگا۔

ہر کسی سے ادب اور احترام کا رشتہ رکھنے والا شخص  ہر جگہ اور ہر وقت کامیاب اور محترم  ہوتا ہے ۔
جوابات تو سب کے پاس ہوتے ہیں۔ مرشد تو سب بننا چاہتے ہیں جبکہ اصل مزہ اور کامیابی چیلا بننے میں ہے۔استاد کی خدمت کرنے والے،سوالات تلاش کرنے والے، خود سے باتیں کرنے والے، خود کو تلاش کرنے والے ، دنیا کے قانون تبدیل کرنے والے، لوگوں کی تنقید برداشت کرنے والے بہت کم ملتے ہیں۔

بہت کم لوگ خود کو اس منصب پر فائز  کرتے ہیں۔ہم سب پسند کرتے ہیں، ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم استاد بنے،  جواب دینے  والے بنے ، کوئی پاگل ، تبدیلی کا مارا ، بے دماغ انسان ہمارے سوچ میں وہ ہوتا ہے، جو خود کو تلاش کرتا ہے، خود کو کھوجتا رہتا ہے،سوالات کرتا ہے، خود کو ناسمجھ مان کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی چاہت ہوتی ہے رب کو پہنچنے کی ، اس کی دربار کی غلامی کرنی کی ، اس کو تلاش کرنے کی ، ہمارے سوالات بھی ہماری مزاج کی طرح، ہماری سوچ اور معیار زندگی کی طرح تنقید سے بھرے ہوئے حسد میں لپٹے ہوئے، لوگوں کی زندگیوں میں طوفان برپا کرنے والے ، اور اصلاح کندہ ، اچھے راہ دیکھانے والے،اور  منزل دیکھانے والے گائیڈ کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہوتے ہیں ۔


بندے تو بندے ہمارے اپنے رب سے سوالات بھی حسد سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اے اللہ اے میرے رب فلاں کو یہ چیز دیا وہ چیز دیا ' میں زیادہ موزوں زیادہ  حقدار تھا مجھے کیوں نہیں دیا؟ ۔ اے میرے رب مجھے فلاں چیز نہیں چاہیے لیکن فلاں سے بھی لے لے۔ یہ ہمارے سوالات ہیں 'یہ ہمارا سوچ ہے  اور  اس سوچ اور اس کام سے ہمارا مقصد معاشرے کا اصلاح ہیں۔اس سوچ کے ساتھ ہم دنیا تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

Û”
ہمارا ایک استاد تھا اللہ جنت فردوس عطا فرمائے وہ اکثر ایسے کام کے لیے یہ مثال دیتے تھے کہ یہ کام بالکل ایسا ہے جیسے کاشت کار پر وہ فصل بیجھنا جو وہ خود بہت زیادہ اگاتا ہو۔ اسے گاہک کی تلاش ہواور ہم خود اس کو گاہک بنانے پر ٹل  جائے ۔
خود کی تلاش، خود سے پوچھے گئے سوال اور اپنے رب کے دربار میں خود کو ناسمجھ ماننے سے انسان کی زندگی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔

اپنی زندگی کی الجھے ہوئے سوال ، ڈیپرس کرنے والے الجھانے اپنے پاس رکھنے سے حل نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کو رب کے دربار میں رکھنے سے ، بڑوں کی تجربات سے مستفید ہونے سے یہ حل اور کمال کو پہنچتے ہیں۔
آئیے آج سے وعدہ کرتے ہیں کہ خود کو تلاش کرینگے خود کو ناسمجھ مان کے بڑوں اور اساتذہ کرام کے ساتھ بیٹھے گے۔ کوئی بھی اچھی بات کہے ، کوئی بھی اچھا مشورہ دے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرینگے۔اور جہاں سے بھی سوالات کے جوابات ملے اسے استاد مان کر اس کا احسان مند رہینگے۔ چاہیے عمر ، رتبے میں ہم سے کم ہو یا زیادہ۔۔انشاءاللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :