تعلیمی اداروں میں بچوں کی ویکسی نیشن‘سندھ حکومت کا کڑا امتحان

پیپلز پارٹی جان لیوا وائرس کے خلاف جنگ میں وفاقی حکومت سے دو چار قدم آگے ہی رہنا چاہتی ہے

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Taleemi Idaron Mein Bachon Ki Vaccination
آر ایس آئی
3 مارچ 2018ء کو آج سے ٹھیک 3 برس قبل صوبہ سندھ میں خسرہ سے بچاؤ کیلئے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی سرکاری مہم جاری تھی اور محکمہ سندھ کی جانب سے نامزد کردہ طبی عملہ صوبہ بھر میں گھر گھر جا کر بچوں کو خسرہ جیسی موذی مرض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگا رہا تھا کہ اچانک الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ سندھ کے اہم ترین شہر نواب شاہ میں حفاظتی ٹیکوں کے مبینہ ری ایکشن کے نتیجہ میں 4 معصوم بچے،5 سالہ حسنین،4 سالہ قمر اور 3 سالہ بچی ہانیہ جاں بحق ہو گئے ہیں چونکہ نواب شاہ شہر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی حلقہ بھی ہے اس لئے قومی میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس خبر نے دیکھتے ہی دیکھتے ملکی میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے اس واقعہ پر فوری طور سوموٹو ایکشن لے کر کیس کی باقاعدہ شروع کر دی گوکہ اعلیٰ عدلیہ کے نوٹس لئے جانے کے بعد اس سانحہ میں ملوث کئی لوگوں کو گرفتار کرکے انہیں ان کے عہدوں سے معطل کر دیا گیا لیکن اس واقعہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی بالخصوص آصف علی زرداری کی ہمشیرہ،عذرا افضل پیچوہو جو کہ اس وقت وزیر صحت سندھ بھی تھی سخت عوامی غیض و غضب اور سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نواب شاہ شہر میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور محکمہ صحت سندھ کے خلاف زبردست غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو پھر آصف علی زرداری نے نواب شاہ کا ہنگامی دورہ کیا اور ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنی نگرانی میں تمام معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا یعنی آصف علی زرداری نے ہر وہ ممکن اقدام اُٹھایا جو متاثرہ بچوں کے لواحقین کو مطمئن کرنے کیلئے ضروری تھا یوں سابق صدر کی بروقت مداخلت نے نواب شاہ میں پیپلز پارٹی کو بہت بڑے سیاسی نقصان سے بچا لیا یہاں یہ بھی واضح رہے کہ حفاظتی انجکشن لگانے کی یہ مہم پاکستان بھر میں جاری انسداد خسرہ کی ملک گیر مہم کا ایک تسلسل تھی جبکہ خسرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کی افادیت کے بارے میں من حیث القوم کسی کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہو سکتا تھا مگر پھر بھی طبی عملے کی ذرا سی غفلت سے نواب شاہ میں 4 معصوم بچے جاں بحق ہو گئے اور اس کی ساری ذمہ داری پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے انتظامی و سیاسی کاندھوں پر آپڑی تھی۔

(جاری ہے)


سندھ حکومت نے نجی و سرکاری درسگاہوں میں زیر تعلیم بچوں کی ”کورونا“ ویکسی نیشن کرانے کا”انتظامی فیصلہ“ کر لیا ہے،قطع نظر اس کے کہ بچوں کی ویکسی نیشن سے جان لیوا وائرس کے پھیلاؤ روکنے میں کتنی مدد ملے گی؟یقینا اس بابت تو آنے والا وقت ہی کچھ بتائے گا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سندھ حکومت بیک وقت لاکھوں بچوں کی ”کورونا“ ویکسی نیشن کرنے کی سرکاری مہم چلائے گی تو لامحالہ بعض بچوں میں (کووڈ ویکسین کی نہیں) بلکہ کسی ذاتی مرض موروثی بیماری یا دیگر طبی وجوہات کی بناء پر ممکنہ مضر اثرات سے جسمانی عوارض یا پیچیدگیاں بھی جنم لے سکتی ہیں اگر بچوں کے والدین کی جانب سے اس کی ذمہ داری سندھ حکومت یا پیپلز پارٹی پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تو کیا پیپلز پارٹی کی قیادت اتنی بھاری ذمہ داری اُٹھانے کے لئے پوری طرح سے تیار ہو گی؟بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ بچوں کی ویکسی نیشن سے پہلے ان کے والدین کی جانب سے رضا مندی کے ایک حلف نامے پر دستخط کروائے جائیں گے لیکن یہ حلف نامہ تو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کو صرف ایک حد تک قانونی تحفظ فراہم کر سکتا ہے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی سیاسی جماعت کے سیاسی تحفظ کے لئے بھی کوئی بندوبست فرمایا ہے؟
دراصل چند ایسی وجوہات ہیں جن پر اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے بروقت غور و فکر کرکے موٴثر سیاسی حکمت عملی مرتب نہ کی تو سندھ بھر میں بچوں کی ویکسی نیشن کرنے کا اقدام اگلے قومی انتخابات سے قبل صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاست کا جنازہ بھی نکال سکتا ہے مثلاً پہلی وجہ سندھ حکومت اور صوبہ کی عوام کے درمیان پایا جانے والا شدید ترین عدم اعتماد ہے خاص طور پر سندھ کے ایسے شہری علاقے جہاں پیپلز پارٹی کا سیاسی اثر و نفوذ نہ ہونے کے برابر ہے وہاں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ سندھ حکومت ”کورونا“ پابندیوں کی آڑ میں ان کا معاشی استحصال کر رہی ہے حالانکہ کوئی بھی ذی شعور شخص اس رائے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرے گا لیکن چونکہ یہ رائے عوامی حلقوں میں پائی جاتی ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مستقبل میں بچوں کی ویکسی نیشن کے مبینہ مضر اثرات کو بہانہ بنا کر ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے دوسری وجہ ”کورونا“ ویکسین بچوں کو دیئے جانے کے حوالے سے طبی ماہرین میں پایا جانے والا شدید اختلاف ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک بھی جہاں بالغ افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہو چکی ہے وہ بچوں کی ویکسی نیشن سے متعلق شدید تذبذب کا شکار ہیں۔


برطانوی حکومت کا خیال ہے کہ 12 سال سے زائد عمر کے تمام صحت مند بچوں کو کووڈ ویکسین دی جا سکتی ہے لیکن برطانیہ کی سرکاری ویکسین ایڈوائز ری باڈی نے حکومتی رائے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”صرف صحت کی بنیادوں پر 12 سے 15 برس کے صحت مند بچوں کو ویکسین لگانے کی وہ حمایت نہیں کریں گے“نیز ویکسی نیشن اور حفاظتی ٹیکوں کی مشترکہ کمیٹی (جے سی وی آئی) کا بھی اصرار ہے کہ ”چونکہ بچوں کو ”کورونا“ سے کم خطرہ ہے لہٰذا وہ بچوں کی ویکسی نیشن کے حق میں نہیں کیونکہ اس کے فوائد بہت معمولی اور خطرات بہت زیادہ لگ رہے ہیں“علاوہ ازیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ابھی بہت تھوڑے بالغ افراد کی ہی ویکسی نیشن کی جا سکتی ہے اور صوبہ سندھ میں بھی کووڈ ویکسی نیشن کی صورتحال بلحاظ تعداد کچھ زیادہ حوصلہ افزاء قرار نہیں دی جا سکتی اس لئے کیا یہ بہتر اقدام نہیں ہو گا کہ پہلے تمام بالغ افراد کی کووڈ ویکسی نیشن مکمل کر لی جائے بعد ازاں بچوں کی ویکسی نیشن کی ملک گیر مہم کا آغاز کیا جائے۔

سندھ حکومت یقینا ”کورونا“ کے خلاف جنگ میں وفاقی حکومت سے دو چار قدم آگے ہی رہنا چاہتی ہے مگر سیاسی دانشمندی کا تقاضا یہ ہو گا کہ صوبہ سندھ میں بچوں کی ویکسی نیشن کو اس وقت ملتوی کر دیا جائے جب تک بالغ افراد کی ویکسی نیشن مکمل نہیں ہو جاتی یا پھر ملک کے دیگر حصوں سرکاری سطح پر بچوں کی کووڈ ویکسی نیشن کا باقاعدہ آغاز نہیں ہو جاتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Taleemi Idaron Mein Bachon Ki Vaccination is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.