پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے تحفظات کون دور کرئے گا؟

احتساب عدالتیں حکومتی کنٹرول سے باہر․․․․․ تحریک انصاف کی قیادت لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا دعویٰ پورا کرپائے گی

منگل 9 اپریل 2019

ppp aur n  league ke tahaffuzaat kon daur kray ga
 امیر محمد خان
کرپشن اور منی لانڈرنگ کی جب بات تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دور میں ہوئی اور حزب اختلاف نے جوابی حملہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے لیڈروں یا وزیر اعظم کی ہمشیرہ کی جائیدادوں کے حوالے سے بات ہوئی تو پی ٹی آئی کے تمام لاوڈسپیکر زکابیانیہ یہ تھا کہ وہ حکومت میں نہیں رہے،
احتساب ان کا ہوتا ہے جو حکومت میں رہے ہوں ایک معقول بیانیہ تھا مگر یہ پی پی پی کے چےئرمین بلاول بھٹو کے احتساب پر بھی لا گو ہونا چاہئے تھا مندرجہ بالا سوچ تحریک انصاف کی تو ہو سکتی ہے ہر طرف سے آزاد میڈیا ٹرائل کرنے والے احتساب ادارے کو پسند نہیں اس لئے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی بلاول بھٹو احتساب اداروں کے چکر کاٹ رہے ہیں بقول تحریک انصاف کے احتساب عدالتیں ان کے کنٹرول میں نہیں اس بیانیہ کی گواہی کے طور پر تحریک انصاف کے اہم رہنماء سابق سینئر وزیر علیم خان احتساب عدالت کی بدولت جیل میں ہیں اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ احتساب عدالتوں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ،انہوں نے اپنے انداز میں اپنا کام جاری رکھنا ہے چاہے بریگیڈئیر(ر)اسد منیر کی طرح مزید لوگ بھی اپنی تذلیل کے خوف سے خود کشیاں کر لیں ۔

(جاری ہے)


سپریم کورٹ بھی نیب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے ۔اس سے اعلیٰ تو کوئی ادارہ ملک میں بچتا نہیں ،دوسری طرف پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا یہ ہی خیال ہے کہ نیب کی پشت پر حکومت ہے اس کے لئے اس وقت حکومت کے خلاف تحریک واحتجاج کی باگ ڈور پی پی پی نے سنبھال رکھی ہے ۔پی پی پی حکومت کو بہت مشکل میں ڈالنے کے درپے ہے اور مولانا فضل الرحمان سے بار بار ملاقاتیں کررہے ہیں اس لئے وہ حکومت کو مشکل ڈالنے کے معاملے پر سنجیدہ نظر نہیں آتے ،مولانا فضل الرحمان اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتے ہیں؟۔


حکومتی کار کردگی کے متعلق پہلے بھی تحریر کیا تھا کہ حکومت کی پوری لاٹ میں وزیر اعظم عمران خان کا چیک اینڈ بیلنس کا انداز ملک کو بہتری کی طرف لے جا سکتا ہے ۔
انہوں نے اب اپنے وسیم اکرم(عثمان بزدار)کے اس ابتدائی دور کو جس میں میڈیا کا سامنے آنے سے پریشان ہوتے تھے (بقول وزیراعظم کے)اب وہ عثمان بزدار کی اس صورتحال کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملانے لگے ہیں خیال کرنے کی یہ بات ہے وزیر اعظم کی رائے میاں نواز شریف کے متعلق آج ہے کہیں وزیر اعلیٰ اس طرف نہ چلے جائیں ،عمران خان کی کرپشن سے پاک پاکستان میں ان کی اپنی ذاتی کاوشوں کی وجہ سے وہ امید ہے اس طرف نہیں جائیں ،بیرونی دنیا سے رابطے ،دوست ممالک کے مطلوبہ امداد،مستقبل قریب میں پاکستان میں سرمایہ کاری وغیرہ وغیرہ ان نکات پر حکومت نے اپنی خاطر خواہ گرفت کرلی ہے ۔


اسٹیٹ بنک سے قرضہ وغیرہ لینا یہ عام معاملات ہیں ہر حکومت لیتی ہے ،تمام تر امداد کے بعد بھی تاحال پاکستان کے عوام اس سے مستفیض نہیں ہو سکے ہیں اس کے لئے بڑی کاوشوں کی ضرورت ہے جب تک عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری سے نجات نہیں ملے گی اس وقت اسے خوشحال پاکستان کہنا زیادتی ہو گی ۔
حکومتیں جب انتخابات کی طرف رجوع کرتی ہیں تو ان کے پاس اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں جو عوام کو بتائی جاتی ہیں مگر بد قسمتی سے انتخاب میں تشہیر تحریک انصاف کی اپنی پالیسوں کی نہیں بلکہ غیر ممالک میں رکھی پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی تھی (بقول تحریک انصاف کے )مگر ایسا کچھ نہ ہوادانشور سمجھتے تھے(بعض ٹی وی اینکرز نہیں)کہ یہ انتخابی نعرے ہیں ،عوام کم تعلیم اور مسائل پر قابو پانے لئے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر تمام انحصار ہوا جس میں کچھ نہ ہو سکا،ایک روپیہ واپس نہ آسکا ماسوائے ملک ریاض سے چار سو سے زائد ارب حکومت کو واپسی کے ،نوکریاں نا پید ہیں ،
مہنگائی کی کوئی حد نہیں ،مکان مل نہ سکے بلکہ خاص طور پر کراچی میں بے شمار لوگ بے گھر ہو گئے ،وغیر ہ وغیرہ ،اب حکومت یقینا عوام کے مسائل پر توجہ دے گی اور جو وعدے انہوں نے عوام کی فلاح بہبود کے لئے تھے (لوٹی دولت واپس لانے سے قطع نظر)اپنی پالیسیاں ایسی مرتب کرنا ہوں گی ہم تو کہہ رہے تھے کہ ہم ورلڈ بنگ کے چنگل سے آزاد ہو جائیں گے،مگر ورلڈ بنک نے”سوسال کا پاکستان “نامی پروگرام دے دیا ہے اس میں چمڑی عوام کی ادھیڑی جائے گی جب تک آمدنی کے ذرائع پیدا نہیں کئے جاتے چاہے وہ صنعتوں کو جال ہو یا برآمدات ۔


آئی ایم ایف سے نجات کا راستہ تحریک انصاف کی حکومت نے ڈھونڈا تھا بڑی ایمانداری سے اور دوست ملک کی طرف ہاتھ بڑھایا اور الحمد اللہ دوست ممالک جو ہمیشہ ہماری مدد کو تیاررہتے ہیں انہوں نے ہماری مشکلات کو آسان کر دیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے مثبت سر ہلانے کے بجائے ان کی ناجائز شرائط پر منفی سر ہلایا جائے ،دوست ممالک کی امداد نے ہمیں وینٹی لیٹر سے اٹھا کر کھڑا کر دیا اب ملک کو معاشی طور صحیح سمت لے جانے کی باری حکومت کی معاشی پالیسوں کی ہے جو تعین کریں گی کہ ہم نے خزانہ خالی خانے ہونے ،مہنگائی کاتحفہ دینے،بے روزگاری سے فراغت حاصل کرنا ہے یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ppp aur n league ke tahaffuzaat kon daur kray ga is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 April 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.