پاکستان ایک مضبوط پر امن ایٹمی قوت

ضرورت اس امر کی ہے پاکستان جیسی مضبوط ایٹمی طاقت کی شرافت، انسانیت اور پر امن پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ،بلکہ اس کے انسانیت دوست رویے کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔خاموش تماشائی بننے کے بجائے اقوام عالم ،مسلم امہ، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے

Hasnat Ghalib Raaz حسنات غالب راز منگل 18 فروری 2020

pakistan aik mazboot pur aman atomy quwat
کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے197 روز بیت چکے ۔ دوسو دن ہونے کوہیں ۔ شومئی قسمتِ کشمیر کہ بھارتی جارحیت ، عالمی سطح کی بدمعاشی ، انسانیت سوز درندگی ، غیر انسانی نفسیات اور سیاہ ترین رویے کودنیا کے کسی ملک نے ، کسی عالمی عدالت نے ، کسی عالمی طاقت نے شاید سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔دوسری جانب بے گناہوں کے لہو سے بھارت کے دل میں کچھ خوف اُترا نہ ہی اس کی پلکیں بھیگیں ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت ساری دنیا سے طاقتور ہے ؟ کیا پاکستان کو وہ اپنا کمزور حریف سمجھتا ہے ؟کیا پاکستان واقعی کمزور ریاست ہے یا بھارت کے مقابلے میں اس کی انسانیت محض کمزوری بن کے رہ چکی ہے ؟ پاکستان محض ایک کمزور ملک ہے یا انسانیت کا علم بردار، آئیے اس کی طاقت اور کردار پر ایک سنجیدہ نظر ڈالتے ہیں ۔

(جاری ہے)

 

دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان پہلی مضبوط اور پر امن اسلامی ایٹمی طاقت ہے ،جس کی بنیاد نظریہ ٴ اسلام پررکھی گئی ہے۔

اسلام کی معنویت پر غور کیا جائے تو لفظ اسلام سَلَم ْ سے نکلا ہے ،جس کے معنی سلامتی کے ہیں ،اسلام کے پیرو کار مسلمان ہیں ، جن کی توضیح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
اَلْمُسْلمُ من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام اور مسلمان براہِ راست سلامتی اور امن کا استعارہ ہیں ۔

دنیا میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جس نے انسانی ہمدردی اورخیر خواہی کا چراغ روشن کیا۔ یہی وہ دین ہے، جس نے گورے ،کالے،عربی اور عجمی کی تفریق ختم کرکے پوری انسانیت کو مساوات اور برابری کا سائبان عطا کیا۔ اسی لیے اسلام کے لیے اُدْ خُلُوْافیِْ السِّلْمِ یعنی امن و سلامتی میں آنے کا تصور پایا جاتا ہے ۔دینِ اسلام میں سلامتی کی تفہیم فتح مکہ سے کی جاسکتی ہے، جب اسلام کے دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا ۔

پر امن کی اصطلاح کا مطلب ایسی کیفیت ہے، جس میں جنگ ،ہنگامہ آرائی یا اشتعال انگیزی کا معاملہ نہ ہو ۔ اس کے معنی آسودہ، مطمئن اور پرسکون کے ہیں ، لہٰذا کسی بھی پر امن مملکت سے مراد ایسی ریاست ہے جوبدسکونی ، ا ضطراب اوربدامنی سے پاک ہو ،جہاں اطمینان بخش ماحول میسر ہو، جس میں بسنے والوں کوجان و مال کا تحفظ حاصل ہو ،جس کے داخلی و خارجی تعلقات امن اور خیرسگالی پر مبنی ہوں ۔

پاکستان بلاشبہ پرامن اور مضبوط ایٹمی اسلامی ملک ہے، جس کی اساس اسلام ہے۔یہ ایسے نبی کا دین ہے، جس کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةَ الِّلْعٰلَمِیْن ہ 
(اے نبی ) ہم نے تمھیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے 
جس قوم کانبی دونوں جہانوں کے لیے منبع ٴ رحمت ہو ، اُس کے بارے میں یہ گمان کیسے کیا جاسکتا کہ وہ قوم پرامن یا سلامتی والی نہ ہو،جب پاکستان کی نظریاتی اساس ہی اسلام اور کلمہ طیبہ ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ ایسی سرزمین دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو ،مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہو اتو اس کو اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے ،جو کسی بھی اسلامی نظریاتی ریاست کی فطرت سے متصادم ہے ۔لہٰذا ایسے عوامل کی اصلیت اورروح کو سمجھنا نہایت ضروری ہے ۔
اس تناظر میں اگر تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جہاد پر مجبور کیا گیا ،جس کی بنا پر حق اورباطل کے مابین کئی جنگیں ہوئیں۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال  نے ان حالات کا نہایت عمدہ انداز میں نقشہ کھینچا ہے : 
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی ، نہ حریفِ پنجہ فگن نئے 
وہی فطرتِ اسداللہی ، وہی مرحبی وہی عنتری 
 تحریک پاکستان کاسفر بھی حق وباطل کی ایک معرکہ آراداستان ہے ۔

پاکستان کی تشکیل ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے ۱۹۴۷ء تک نوے سال کی جستجو کا حاصل ہے ۔ اس دوران میں پہلے انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانانِ برصغیر کا استحصال ہوا،اس کے بعد ہندو قوم کی چیرہ دستیوں کا ایک طویل سلسلہ چلا۔ ہندوقوم کی ناپاک ذہنیت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کے معمارِ اول سرسید نے 1867ء میں دو قومی نظریے کا تصور پیش کیا، جو بعد میں اقبال اور قائدِ اعظم کے لیے بھی ناگزیر ٹھہرا ۔

اسی دو قومی نظریے کے تحت مسلمان راہنماوٴں نے کانگریس سے علیحدگی ، مسلم لیگ اور الگ اسلامی ریاست کے قیام کی ضرورت محسوس کی۔ یہ ہندو قوم کی تنگ نظری ، متعصب سوچ اور ناپاک عزائم ہی تھے، جن کے باعث مسلمانانِ برصغیر نے اپنی الگ ریاست کے قیام کا تہیہ کیا ۔
تحریک پاکستان کی طویل داستان سے قطع نظر پاکستا ن کے ایٹمی طاقت بننے کا قصہ بھی ہندو قوم کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔

پاکستان کو پر امن اور مضبوط ایٹمی طاقت کے طور پر واضح کرنے کے لیے چند سوالات کا احاطہ کرنا پڑے گا۔ ایٹم بم کیا ہے ؟اس کے نقصانات اور تباہی کا دائرہ کار کس قدر ہے ؟ اسلام میں ایٹم بم کا تصور کیا ہے ؟ دنیا میں کون کون سے ملک ایٹمی طاقت ہیں ؟ بھارت اور پاکستان کس درجے کی ایٹمی طاقتیں ہیں ؟ یہ کس قدر تباہی مچا سکتی ہیں ؟ کیا بھارت کی مسلسل شر پسندی پاکستان کوپرامن ایٹمی طاقت رہنے دے گی ؟ پاکستان کس قدر مضبوط ایٹمی طاقت ہے ؟کیا پاکستان ایٹمی حملے کرے گا ؟ عالمی طاقتوں کی خاموشی اور ایٹمی جنگ سے دنیا پر کیا اثرات ہوں گے؟ پاکستان کی پرامن اور مضبوط ایٹمی طاقت کے استحکام کے لیے تقاضے اور سفارشات کیا ہیں؟ 
درج بالا سوالات کی روشنی میں اگر دنیا کے ایٹمی ممالک کا مختصر محاکمہ کیا جائے تو اس وقت دنیا میں کل دس نیو کلیئر طاقتیں ہیں،جن کی ایٹمی صلاحیت اور مضبوطی کے حوالے درجہ بندی کی گئی ہے ۔

ایران پاور فل ہتھیار رکھنے والے ممالک میں دسویں درجے پر ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے۔ اس سے قبل شمالی کوریا نویں درجے کی حامل ایٹمی طاقت ہے، جس کے پاس 10نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں ۔آٹھویں درجے پر اسرائیل ہے، جس کے پاس 80نیو کلیئر ہتھیار ہیں ۔بھارت اپنی ایٹمی صلاحیت کے اعتبار سے ساتویں درجے کی ریاست ہے ،جس کے پاس 135 وار ہیڈہتھیار موجود ہیں۔

پاکستان ایٹمی ٹیسٹ کے حوالے سے ساتویں ایٹمی طاقت ہے لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے تقابلی سروے میں 145 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ پانچویں درجے پرUKہے ،جس کے پاس215 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔280 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ چین چوتھے نمبر پرہے ۔تیسرادرجہ فرانس کو حاصل ہے ،جس کے پاس 300ایٹامک وار ہیڈز ہیں ۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے ،جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد6550 ہے، جب کہ6850 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ روس پہلے نمبر پر ہے۔

واضح رہے کہ مقدار اور کوالٹی کی حیثیت سے روس دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا پرو ڈیوسرمانا جاتا ہے ۔ کاش دنیا کی تباہی کا سامان بنانے والے یہ لوگ اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوتے ۔ قرآن کہتا ہے : 
وَ لاَ تُسْرِ فُوْا ط اِ نَّہ‘ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِ فِیْنَ ہ
اور حد سے مت گزرو یقیناً وہ (اللہ تعالیٰ ) حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا 
ایٹمی دھماکے کس قدر خطرناک ہوتے ہیں ،کاش ایٹمی ہتھیاربنانے اور اس پر بھنگڑے ڈالنے والے انجامِ کار سے باخبر ہوجائیں ۔

ایٹمی دھماکوں کی تباہی پر ایک نظر ڈالیں تو دنیا میں پہلی بار امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر 6 اگست1945ء، ایٹمی دھماکوں کا تجربہ کیا،جس سے دو لاکھ لوگ لقمہ ٴ ا جل بنے اور ہنستی مسکراتی زندگی اچانک راکھ کا ڈھیر بن گئی ۔ امریکا کے اس بم کا نام لٹل بوائے تھا، جس کے مقابلے میں آج کا بم کئی گنا زیادہ طاقتور ہے ۔ 2018ء کے سروے کے مطابق امریکہ پچاس میگا ٹن TSAR ہائیڈروجن بم بنا چکا ہے ،جو ستائیس ہزار کلو گرام وزنی ہے۔

یہ 1945کے لٹل بوائے بم سے 3333گنا زیادہ طاقتورہے لیکن اس سے بھی حیران کن روس کا 600میگا ٹن ہائیڈروجن بم ہے ،جولٹل بوائے بم سے 6666 گنا زیادہ تباہی مچاسکتا ہے،یہ عمارتوں کے علاوہ ہر ذی روح کو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹا سکتا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن پاک سورة اعکاف کی آیت نمبر 24 میں ہائیڈروجن بم کی شہادت موجود ہے:
” پھر انھوں نے بادل دیکھا، جو میدانوں کی طرف آرہا تھا ،کہنے لگے یہ بادل ہے، جو ہم پر مینھ برسائے گا ۔

کوئی نہیں ، بلکہ یہ وہ چیز ہے ،جس کے لیے تم نے جلدی کرلی ہے ۔ایسی ہوا جس میں درد ناک عذاب ہے ۔ہر شے کو اپنے رب کے حکم سے تباہ کر ڈالتی ہے ۔پھر ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔“ 
اسی تسلسل میں سیرت نبوی کا مطالعہ کیاجائے توآ ج سے ساڑھے چارہزار سال قبل قوم ِ ثمود پرخدا کے عذاب کا نزول ہائیڈروجن بم کی شہادت فراہم کرتا ہے ،جب غزوہ تبوک کے موقع پرمسلمانوں کے قافلے نے ’ رب ال خالی ) ( Rub, al ,Khali Desert کے نام سے موسوم قوم ثمود کے کھنڈرات کی جگہ پڑاوٴ ڈالا تو نگاہ ِ نبوت سے کچھ پوشیدہ نہ رہا ۔

آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا:
” بھرا ہوا پانی انڈیل دو ، گوندھا ہوا آٹا پھینک دو اور ہانڈیاں اوندھی کر دو اور یہا ں قیام نہ کرو کہ تم بھی تباہی کا شکار ہوجاؤ “
ان شواہد سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سائنس دانوں کی ایجاد سے گویا ہزاروں سال قبل خدا کے عذاب کی صورت میں ایٹمی تابکاری یا ہائیڈروجن بم کی شہادتیں موجود ہیں ۔قرآن حکیم سورة الذاریٰت کی آیت نمبر ۴۱ تا۴۶ میں ارشاد ہے :
 ” قومِ عاد کے واقعے میں سبق ہے،یاد کرو جب ان پرایسی بانجھ ہوا (منحوس آندھی)بھیجی ،جو، جس چیز پر گزرتی اس کوریزہ ریزہ کر دیتی۔

اسی طرح قومِ ثمود کے واقعہ میں بھی عبرت ہے یاد کرو جب ان سے کہا گیا اب تھوڑی مدت کے لیے اٹھا لو مگر انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کی آنکھوں کے دیکھتے انھیں ایک زور کی کڑک نے پکڑ لیا ،پھر نہ وہ اٹھ سکے نہ اپنا بچاوٴکر سکے ۔“ 
گویا قومِ ثمود پر عذابِ الٰہی ایٹمی حملے ہی کی صورت میں تھا ۔ ممکن ہے انسان کوایٹمی ہتھیاربنانے کا تجسس اسی سے پیدا ہوا ہو ۔

سائنس کی نظر سے دیکھیں تو بانجھ ہوا اور خوفناک چمک کو ایٹمی تابکاری (atomic rediation)سے با آسانی مماثلت دی جاسکتی ہے۔انسان کی ایٹمی جستجو انسانیت کے خاتمے کے لیے کس قدر خطرناک ہے ، اس کا علم سب کوہے مگر تعجب ہے کہ حضرت انسان بد سے بدتر کی تلاش میں آپ ہی اپنی موت کا اہتمام کرتا چلا جارہا ہے۔ بقول حالی 
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں 
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں 
سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ،جب نیو کلیئر ہتھیاروں کی جنگ ہوتی ہے تو اس کی تابکاری اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ انسانی جسم اور اس میں موجود DNAتک کو تباہ کر دیتی ہے ۔

پلاٹینیم اور یورینیم ایٹم کے مرکز (Nucleus) کے ٹوٹنے، تھرمل انرجی ، گاماو بیٹا شعاوٴں ، دو یا دو سے پروٹان، نیوٹران کی بے لگامی اور سرکشی وہ صورتِ تباہی پیدا کرتی ہے کہ زندگی کا وجود ختم ہوجاتا ہے ۔اسی طرح ہائیڈروجن ، تھرمو نیو کلیئر بم ،جسے Hبم کا بھی نام دیا جاتا ہے ، اس سے کبھی کنٹرول نہ ہونے والے ردعمل(Chain Reaction) اور ہائیڈروجن آئسوٹوپس کا دھماکا خیز مواد نکلتا ہے ،جس کا دھواں کچھ ایسا بے لگام ہوتا ہے ،کہ اس کے خاتمے میں برسوں بیت جاتے ہیں ۔

یہ منھ زور تابکاری شعائیں ایک سیکنڈ کے ملین حصے میں ہوا ،پانی، خوراک اور انسانی جسم کے خلیوں کو ختم کر دیتی ہیں ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایٹم بم دھماکا سے زمین کو سورج کا منھ دیکھنے کے لیے تیس سے ستر سال لگ سکتے ہیں ۔اوزون کی تہ برباد ہوجاتی ہے ،جس سے سورج کی روشنی براہِ راست زمین پر آ گرتی ہیں، یوں دنیا میں گھاس تک کا پیدا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔

 یہ سوال کہ تباہی کے اس سفر میں پرامن اسلامی ملک پاکستان کیسے شامل ہوا ؟ ایٹمی طاقت بننا اس کا شوق تھا یا کسی مجبوری کے باعث اس کے لیے ایسا کرنا لازم ہوگیا تھا ۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے ،مگر اس کے کے مختصر احوال سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ پا کستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا بنیادی محرک بھارت ہے ۔ 
یہ کہانی ۱۱ مئی ۱۹۹۸ ء سے اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف قازقستان کے دورے پر تھے ۔

انھیں اطلاع ملی کہ راجستھان کے علاقے پوکھران میں بھارت نے تین ایٹمی دھماکے کر دیے ہیں۔ بہت سی عالمی طاقتوں ،جن میں امریکہ ،برطانیہ ،جرمنی ،چین ، نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا وغیرہ نے بھارت سے تعلقات محدودکر لیے ، جاپان کے بیس شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ اسی دوران میں بھارت نے دو مزید دھماکے کر ڈالے ۔بھارت کا یہ اقدام پاکستان کے لیے مایوس کن تھا ۔

اُدھرG8کے اجلاس میں اسلحہ کے ڈیلر روس نے کہا کہ اگر بھارت چاہے تو چار اور دھماکے کر سکتا ہے ۔ امریکا نے بھی شفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے بھارت میں مزید سرمایہ شروع کردی ۔اسی اجلاس میں جرمنی نے بے پر کی اڑا دی کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیے ہیں ۔یہ جھوٹی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ،جس کے باعث ہزاروں فون آئے اور پاکستان کو باربار تردید کرنا پڑی ۔

اس ڈرامے پر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : 
”ہمارے پاس ایٹمی بم ہے، شرارتی پڑوسیوں پر گرا دیں گے “ 
ٓ لائن آف کنٹرول پر بھارت نے بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کرد یا،جس میں ہمیشہ غریب کسان اور بے گناہ افراد مارے جانے لگے۔ اس پر مستزاد یہ کہ۲۲ مئی ۱۹۹۸ء بھارت نے بارڈرز پر جنگی ہتھیار پہنچا دیے اور ایٹمی میزائل فوج کے حوالے کر دیے۔

اس گھڑی میں ایٹمی دھماکوں کا مشکل فیصلہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر تھا ۔مگر امریکی صدر بل کلنٹن نے دھمکی دی :
” اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس پر پابندیاں لگا دی جائیں گی ۔‘ ‘ 
امریکا نے یہ بھی پیش کش کی:
  ’دھماکا نہ کرو، مراعات لو‘ 
پیش کش میں پریسلر ترمیم کا خاتمہ اور F16طیارے مہیا کرنے کے اشارے موجود تھے ۔

اس کے بعد ایک امریکی وفد پاکستان بھیجا گیا ،جس کے ذریعے دباوٴ ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ آخر میں کلنٹن اور ٹونی بلیئر نے فون پر نواز شریف کو منع کیا ،جس پر نواز شریف کاجواب تھا: 
’ میں وعدہ نہیں کرسکتا ‘
اس دوران میں عالمی طاقتوں نے سازش کا ایک اور جال بنا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پاس کرائی جائے کہ اگر کوئی ملک ایٹمی ٹیسٹ کرے گا تو اس پر عراق جیسی پابندیاں لاگو ہوں گی یعنی سوائے خوراک اور ادویات کے وہ ملک کسی چیز کی خریدو فروخت نہ کر سکے گا۔

اگریہ قرار داد منظور ہو جاتی تو پاکستان کبھی اپنے ایٹمی ٹیسٹ نہ کر سکتا لیکن اللہ کی رحمت کا در کھلا اور بھارت کی حماقت نے پاکستان کو بچا لیا۔ اسی دوران میں بھارت نے چین کو دھمکانا شروع کردیا کہ 1962ء کی چین بھارت جنگ میں چین نے بھارت کے جس ۹۵ ہزار کلو میٹر علاقے پر قبضہ کیا تھا ،واپس کرے ۔ بھارت کے اس احمقانہ اقدام کی وجہ سے چین نے قرار داد کو ویٹو کر دینے کا عندیہ دے دیا ۔

یوں مکروہ خیال ملکوں کا اس سازش کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کر پا کستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ کرچکا تھا ،جس طرح اس نے عراق کے ساتھ کیا تھا مگر پاکستان نے اس ضمن میں اپنے آپ کو مزید مضبوط کر لیا اور اسرائیل کا مکروہ خواب بھی ادھورا رہ گیا۔
دنیا کے دیگر ملکوں کی مخالفت ایک طرف ، پاکستانی حکومت پر اندرونی دباوٴ بھی کسی آزمائش سے کم نہ تھا۔

عمران خان مظاہرے کر رہے تھے ”روکھی سوکھی کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے“۔جماعت اسلامی دھمکی دے چکی تھی: ” ۳۰ مئی تک دھماکہ ورنہ سڑکوں پر آجائیں گے ۔“بے نظیر کا کہنا تھا: ”نواز شریف !جنرل نیازی کی طرح ہتھیار نہ ڈالیں۔“ راولپنڈی کے آب پارہ چوک میں سکول کے ننھے بچوں نے ریلی کا انعقاد کیا :”فیڈر نہیں، ایٹمی دھماکہ چاہیے۔“ ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی دباوٴ کے باوجود پر امن اسلامی ریاست پاکستان نے عالمی برادری کو پیشکش کی کہ 
”انڈیااپنے جوہری ہتھیارتلف کر دے تو پاکستا ن ٹیسٹ نہ کرنے پر غور کر سکتاہے“
لیکن جب ہر طرف سے مایوسی ہو ئی تو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا تہیہ کر لیا۔

اس کے لیے افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب کم آباد اور بے آب و گیاہ وادی (چاغی)،جس پر امریکی سیٹلایٹ کی گہری نظر تھی ۔ ان پہاڑیوں کو بیس سال پہلے ہی سے پاکستان نے اپنے جوہری ٹیسٹ کے لیے مختص کر رکھاتھا۔ یہ علاقہ کئی کلومیٹر تک آبادی سے خالی کرا لیا گیا۔ چاغی کی ان پہاڑیوں میں (L) شکل کے دو غار بنائے گئے تاکہ منظم طریقے سے ٹیسٹ کی جاسکیں ۔

لیکن اسی اثنا میں 24 مئی کو پی آئی اے کا ایک طیارہ جو ایبٹ آباد سے کراچی جا رہا تھا۔اسے بھارتی RAW ایجنسی کے تین اغواکاروں نے اغوا کر لیا۔ ان اغوا کاروں نے اس کا رخ بھارت کی طر ف کروا دیا لیکن پائیلٹ نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے طیارے کا رخ حیدر آباد (سندھ )کی طرف کر دیا اور اغوا کاروں سے کہا کہ ہم بھارت کے شہر جودھ پور جا رہے ہیں ۔

حیدر آباد ائیر پورٹ پر ہندی بولی میں اغوا کاروں کو اعتماد میں لے کر انھیں یقین دلا یا گیا کہ وہ جودھ پور( بھارت )کامیابی سے پہنچ گئے ہیں ۔ اس طرح ان اغوا کاروں کو حیدرآباد میں جہاز سے اترتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے دو تقاضوں میں سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان چاغی ایٹمی ٹیسٹ سے دست بردار ہو جائے ۔
 تمام تر مشکلوں کے بعدآخر یوم تکبیر کا سورج بلند ہو ا اور ۲۸ مئی ۱۹۹۸ء جمعرات کے روز چا غی کا ۱۰۰ کلو میٹر کا علاقہ پاک فوج نے گھیرے میں لے لیا ۔

فضا میں فائیٹر جیٹ پرواز کرنے لگے ۔ممکنہ بھارتی حملہ کے جواز میں غوری اور حتف میزائلوں کو بھارت کی جانب لگا دیاگیا اور پاکستانی وقت کے مطابق 3 بج کر 16 منٹ پرپاکستان کے قابلِ فخر سائنسدانوں کی ٹیم نے ڈاکٹرثمر مبارک مند کی سربراہی میں پانچ ایٹمی دھماکے کر دیے۔فضا نعرہٴ تکبیر کی صداوٴں سے گونج اٹھی ۔ یہ ’ چاغی ون ‘ تھا ۔یوں بھارت کا حساب برابر کردیا گیا ۔

30 مئی کو ایک اور جوہری ٹیسٹ کیا گیا یہ ’ چاغی ٹو‘ تھا ،جس نے بھارت پر پاکستان کی برتری ثابت کردی ۔اقوام عالم کی سماعتوں پر لرزہ طاری ہوا ۔ان دھماکوں کی پاداش میں مخالفت اور نفرت کے الاوٴ بھڑک اٹھے ۔ عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کو پابندیوں کا سامنا ہوا۔ پہلے ہی سے ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور ایشین بنک کا پاکستان پر 32ارب ڈالر کا 
قرض تھا،جب کہ مرکزی بنک میں ریزرو صرف 1.26ارب ڈالر تھا۔

ایسی حالت میں ایٹمی دھماکے کرنا پاکستان کے لیے بلاشبہ جرأت آموز اور مشکل ترین فیصلہ تھا ۔
پاکستان کس قدر مضبوط ایٹمی طاقت ہے اس کا اندازہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تقابل کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ ا یٹمی میزائلوں کی دوڑ میں بھارت کے پاس اگنی۷۰۰ کلومیٹر اور پرتھوی ۲۰۰۰ کلومیٹر تک مارکرنے والے میزائل تھے، جو پاکستان کے شہروں لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، گوادر اور کوئٹہ تک فقط چار منٹ کے اندر مار کر سکتے تھے۔

طاقت کے اس عدم توازن پر بھارت رقص کرتا تھا ۔ اب پاکستان پر واجب تھا کہ اس عدم توازن کو ختم کرے ۔اسی وجہ سے پاکستا ن کی پر امن ریاست کو ایٹمی میزائلوں کی دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔خطے کیامن اور پاکستان کو مضبوط ایٹمی طاقت بنانے کے لیے حتف III ( غزنوی میزائل) کا کامیاب تجربہ کیا گیا ۔یہ میزائل 230 کلو میٹر تک کے علاقے کو اپنا ہدف بنا سکتا ہے۔

حتفVIII راڈ 350 کلو میٹراور 700کلو میٹر کے کروز میزائل ، 750کلو میٹر تک مار کرنے والے شاہین IV ، غوری V،1550کلو میٹر،شاہین ٹو2000کلو میٹر،شاہینIII ،2750 کلو میٹرتک تباہی مچانے والے میزائل کی طرح بابر ٹو میزائل بنا کر پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں طاقت کا توازن برقرار کر دیا بلکہ اس سے آگے قدم اٹھا لیا ۔یوں پاکستان ایک مضبوط ایٹمی طاقت کا روپ دھار گیا اور بھارتی ’ دلی دور است ‘ کی خوش فہمی کا خاتمہ ہوگیا ۔

اب پاکستان اپنی مضبوط ایٹمی طاقت سے بھارت کے کئی شہروں مثلاً دہلی ،نئی دہلی ،ممبئی، بنگلور ،چنائی،احمدآ ٓباد ، ناگپور ،بھوپال اور لکھنوٴ وغیرہ کو ایک سیکنڈ میں خاکستر میں بدل سکتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ بھی پاکستانی میزائلوں کا ہدف ہیں ۔اس میں یقیناً کوئی دور ائے نہیں کہ پاکستان دنیا میں ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہے مگر اتنے سب کچھ کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ پر امن ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

انڈیا جیسے شر پسند ہمسائے کی ہر شرارت پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں کیوں آگے بڑا ،اس کی اپنی ایک داستان ہے ۔کوئی ایک دکھ ہے ، 1947کی ہجرت کے زخم ابھی بھرے نہ تھے کہ 1948 ہی میں بھارت کے ساتھ کشمیر سیکٹر پر پاکستان کواپنے دفاع کے لیے جنگ کا حصہ بننا پڑا ۔ 1965میں بھارتی تکبر کو خاک میں ملانے کے لیے یادگار قربانیاں دینا پڑی ۔

1971میں عیار بھارت کے ساتھ ساتھ اپنوں کی غداری کی وجہ سے دو لخت ہونا پڑا ۔بنگال ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔ 1998میں ایٹمی دھماکے بھی بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کیے ۔ 9مئی تا 20جولائی 1999پاکستانی کشمیری مجاہدین نے کارگل سیکٹرپر 25کلومیٹر کا علاقہ بھارت کی منھ زور فوج سے چھین لیا ،مگر20 جولائی کو اعلانِ واشنگٹن نے ایک بار پھر پاکستان کی امن پسندی کو استعمال کیا اور کچھ ناقابلِ فہم دکھ پاکستان کو سہنا پڑے ۔

2001میں طاقت کے نشے میں آکر بھارت نے خواہ مخواہ اپنی فوج بارڈر پر لا کھڑی کی مگر پاکستان نے اپنے مضبوط اعصاب سے کام لیا اور دنیا کوممکنہ ایٹمی جنگ کے بجائے امن کا پیغام دیا ۔حالیہ دنوں میں27فروری 2019ء بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے دودن بعد ابی نندن کی بلا مشروط واپسی کا منظر پوری دنیا نے دیکھا مگر بھارت پر اس کا کچھ اثر ہو ا نہ ہی عالمی دنیا نے پاکستان کے مثبت کردار کوخاطر خواہ سراہابلکہ مقامِ ِ شرمندگی یہ ہے کہ بھارت نے ابی نندن کوبہادری کا ایوارڈ Vir Chakra دے کر اپنے ہاتھ ہی اپنی ناک کاٹ ڈالی ۔

 
 کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ بھارت ورکنگ باونڈری اور کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ نہ کی ہو اور غریب کسانوں کا خون نہ کیا ہو۔ پاکستان تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو احتجاجی مراسلہ پیش کرتا ہے ،جسے بز دلی کا نام دیا جا تا ہے لیکن درحقیقت خطے کے امن کے لیے ایک پر امن اور مضبوط اسلامی ایٹمی طاقت کی برداشت ، سمجھ داری اور اسلامی تعلیمات کی تاثیر کا ثبوت ہے ۔

قرآن کی سورة النمل کی آیت نمبر59میں ارشادہ ہے :
وَاللہ ُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادْ
اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے 
 کاش بھارت کو اس بات کا ادراک ہو کہ وہ قوم، جس کا خدا ستر ماوٴں سے زیادہ پیار کرنے والا رحیم و رحمن ہو، جس کا نبی دونوں جہانوں کے لیے منبع ٴ رحمت ہو ،جس کی رہنمائی کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات ہوں تو وہ قوم قتل و غارت ، درندگی اور بربادی کا کس طرح سوچ سکتی ہے۔

مقامِ افسوس یہ ہے کہ بھارت کی ریشہ دوانیوں اور ہرزہ سرائیوں سے کون سا زخم ہے، جو پاکستان کے سینے پر نہیں لگا، تقسیم ِ بنگال کا معاملہ ہو یاتاحال مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط اور بربریت کا مسئلہ،بھارت نے ہمیشہ اسے پاکستان کی کمزوری قرار دیا۔مضبوط ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان پر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں، بھارتی دہشت گرد تنظیم RAW کی سفاکانہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ امن کی شمع روشن کی۔

جنرل راحیل کی سربراہی میں 15جون 2014ء تا 22فروری 2017 ء تقریباًاڑھائی سال ضربِ عضب اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی سر براہی میںآ پریشن رد الفساد(22فروری 2017)شروع کیا گیاجس میں پاکستان کو سترہزار جانوں کی قربانی دینا پڑی مگر دکھ اس بات پر ہے کہ امریکہ کی جانب سے ڈو مور کا تقاضا سامنے آتا رہا۔
حالیہ دنوں میں بھارت کی طرف سے 5اگست 2019ء سے آرٹیکل370 اور 35Aکو بلا جواز ختم کر کے کشمیریوں کے تشخص کے خاتمے کا غیر آئینی اقدام جاری ہے ۔

نہتے کشمیری مسلمانوں پر تاحال کرفیو لگا ہوا ہے۔ہر صبح پاکستان کو ایٹم بم کی دھمکی دی جاتی ہے۔یقیناًہر نیا دن یہ تقاضا کرتا ہے کہ بھارت کی بربریت ،جارحیت ،بے حیائی اور سر کشی کا منھ توڑ جواب دیا جائے اور عوامی رائے بھی یہی ہے کہ بھارت پر بلا تاخیر ایٹمی حملہ کر دیا جائے۔ بھارت جس بے حیائی سے خطے کا امن تباہ کر رہا ہے اور علاقہ میں اپنی اجارہ داری کا خواہاں ہے اس کے عزائم کو خاک میں ملانا لازم ہے ۔

ایک سیکنڈ میں بھارت کو نیست و نابود کر نا پاکستان کے لیے چنداں مشکل نہیں ہے لیکن اتنے سب کچھ کے باوجود پاکستان کی سفارتی کوششیں اقوام متحدہ، سلامتی کونسل ،سیکورٹی کونسل، او آئی سی، تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک سے بار بار رابطے درحقیقت پاکستان کی پر امن خارجہ پالیسی کے عکاس ہیں ۔ پاکستانی حکومت کی امن کی خواہش صرف اس خطے ہی کو نہیں پوری دنیا کوایٹمی جنگ کی تباہی سے بچانے کی غر ض سے ہے لیکن بد قسمتی سے عالمی دنیا اورمفاد پرست ممالک بھارت کے ساتھ مالی مفادات کی وجہ سے اتنے بڑے خطرے کو محسوس نہیں کررہے ۔

 اس سارے منظر نامے کے بعد پورے وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کی عظیم ، پر امن اور مضبوط ایٹمی طاقت ہے ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت تقسیم برصغیر سے آج تک ،جس بے حیائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے، پاکستان کے بجائے ایٹمی صلاحیت کا مالک کوئی اور ملک ہوتا تو بلا تاخیربھارت پر ایٹمی حملے کرچکا ہوتا ۔
ضرورت اس امر کی ہے پاکستان جیسی مضبوط ایٹمی طاقت کی شرافت، انسانیت اور پر امن پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ،بلکہ اس کے اانسانیت دوست رویے کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔

خاموش تماشائی بننے کے بجائے اقوام عالم ،مسلم امہ، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔لیکن اگر دنیا کی اس خاموشی سے بھارت اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو گیا تو وہ دن دور نہیں کہ یہ خطہ بلکہ پوری دنیا ایٹمی جنگ کے شعلوں کی زد میں ہو۔یاد رہنا چاہیے کہ بھار ت اور پاکستان کے 300کے قریب ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کی تباہی کے لیے کافی ہیں ۔

کاش اقوام عالم بروقت متوقع تباہی کا ادراک کرے ۔ انسانیت کے دعوے داروں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ درندگی میں انسان جانوروں سے بدتر کیوں ہوتا چلا جارہا ہے ۔ شام ہو یا فلسطین ، عراق ہو یا افغانستان ،برما ہو یا کشمیر انسان کے لہو کی کی قیمت اتنی ارزاں کیوں ہے ؟
یاد رکھیے ! گولیاں اور بارود کسی کے دوست نہیں ہواکرتے ، تابکاری شعاؤں کے تنور میں گیلی اور خشک تمام لکڑیاں جل کر راکھ ہوجایاکرتی ہیں۔

’تنگ آمد بجنگ آمد ‘ کے مصداق کسی من چلے نے ایٹمی دیا سلائی جلا دی تو جنگل کے سارے قانون اور دنیا کی مصنوعی تشویش کے سارے مسودے جل کر راکھ ہوجائیں گے ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح مالی مفادات کی حرص کے پلازے زمیں بوس ہوجائیں گے ۔سفید رنگ کے سارے بے داغ احرام کالے کفن کا روپ دھار جائیں گے اورجلی ہوئی ہڈیو ں کی اڑتی کالی راکھ سے اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل کے منصفوں اور عادلوں کے چہرے مسخ ہوجائیں گے۔

جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو پورے وثوق سے یہ کہا جاسکتا کہ پوری دنیا میں پاکستان ایک باصلاحیت ملک ہے اور پاکستانی قوم دنیا کی باصلاحیت قوموں میں سے ایک ہے ۔یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ اگراسے سیاسی و معاشی استحکا م حاصل ہوجائے تو یہ دنیا کے عظیم ترین ملکوں میں شامل ہوسکتا ہے ،کیوں کہ جو ملک بدترین اور گھمبیر معاشی حالات کے باوجود ایک مضبوط ایٹمی طاقت بن سکتا ہے ،وہ کوئی بھی انقلاب برپا کرسکتا ہے ۔

یہ ملک اسلامی دنیا کے لیے مضبوط قلعہ ہے ۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ عرب ممالک بھارت کے بجائے اس کے ساتھ اخلاقی و معاشی تعاون کرتے اور اس اسلامی ایٹمی طاقت کواستحکام دیتے ۔ مقامِ افسوس ہے کہ عرب دنیا وقت کے تیور پڑھنے سے قاصر ہے مگرایک بات طے شدہ ہے کہ جو ملک 32ارب ڈالر کے قرض کے باوجود ایٹمی دھماکے کر سکتا ہے وہ کسی بھی حالت میں کوئی بھی کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے ۔

دنیا کو تنگ نظری کی عینک اتارکر یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ پاکستان ایک پر امن مگر مضبوط ترین ایٹمی طاقت ہے۔بے حساب زخم سہنے کے باوجود صبر وتحمل اور بردباری کا طویل ترین مظاہرہ اس کے مضبوط ہونے کی روشن دلیل ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان دنیا کی معتدل ،باصلاحیت ،پرامن اور مضبوط ترین ایٹمی طاقت ہے۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے ۔ اسے دنیا کے سہاروں سے بے نیاز کردے اور دنیا کے نقشے پر اس کا چاند ستارہ تا حشر جگمگاتا رہے ۔ باشعور شاعر احمد ندیم قاسمی کے شاندار الفاظ بطور دعا: 
خدا کرے میری ارض ِ پاک پہ اترے 
وہ فصلِ گل جسے اندیشہٴ زوال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

کراچیسندھپاکستانبھارتامریکہڈرونبرطانیہلاہورفائرنگقتلحملہدہلیممبئیدہشت گردمیاں نواز شریفافغانستانجنرل راحیل شریفآئی ایم ایفقراردادتباہیمقبوضہ کشمیروزیراعظمدنیاکوئٹہفوجاغواپی آئی اےاقوام متحدہجماعت اسلامیکنٹرول لائناسرائیلفلسطینعلامہ اقبالایرانغریبجہادمسئلہ کشمیرایبٹ آبادپانیلائن آف کنٹرولڈالرروسچینواشنگٹنبرماغداریایٹمیدھمکیعراقفرانسکاربنکجنرل قمر جاوید باجوہجرمنیاسلحہنیوزی لینڈگوادرآٹا

pakistan aik mazboot pur aman atomy quwat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.