منی لانڈرنگ سکینڈل ،پیپلز پارٹی بندگلی میں

سندھ حکومت میں تبدیلی کی چہ میگوئیاں جعلی اکاؤنٹس مقدمے میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کانام آنے کا معاملہ مزید گھمبیر ہوگیا

پیر 14 جنوری 2019

money laundering scandal
 سید طاہر عباس شاہ
منی لانڈرنگ سکینڈل میں پیپلز پارٹی ان دنوں بند گلی میں داخل ہو چکی اور سندھ حکومت میں تبدیلی کی چہ میگوئیاں بڑے زور وشور سے جاری ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی 100دن کا جو پلان دیا تھا اس پر اس نے خاطر خواہ عمل بھی دیکھنے کو ملا۔حکومت کی کرپشن اور تجاوزات کے خلاف جومہم جاری ہے اس پر بڑی سختی سے عملدرآمد کروانے کیلئے چیک اینڈ بیلنس کا ایک موٴثر نظام وضع کیا گیا ہے اور حکومتی زعماء کا یہی کہنا ہے کہ کر پٹ عناصر سے کوئی این آر او نہیں ہو گا،حکومت عوام کے خون پسینے کی کمائی عوام پر ہی خرچ کرنے کیلئے پر عزم ہے ۔


وفاقی وزیر اطلاعات کا بلاول بھٹو ز ر داری کے وفاقی حکومت گرانے سے متعلق بیان کے جواب میں یہ کہنا کہ اگر ”حکومت ابو نہیں گر اس کے تو آپ کیا گرائیں گے“حالات کی شدید سنگینی کی طرف ایک اشارہ ہے ۔

(جاری ہے)


فواد چوہدری کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ پی ٹی آئی سندھ میں حکومت گرانے کے لئے کوشاں ہیں ایک تاثر پیدا کیا جا رہا تھا کہ ہم گویا سندھ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں کسی وفاقی وزیر نے نہیں کہا کہ گورنر راج لگ رہا ہے ہاں میڈیا میں قیاس آرائیاں ہورہی ہیں اور میڈیا میں ایسا ہوتا ہے ،میڈیا کا اپنا کردار ہے اور وہ تجرئیے کرتے ہیں ۔


بلاول بھٹو زرداری نے بھی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صدر زرداری اجازت دیں تو 10دن میں وفاقی حکومت گراسکتے ہیں ۔جعلی اکاؤنٹس مقدمے میں وزیر اعلیٰ سندھ کا نام آنے معاملہ مزید گھمبیر ہوچکا ہے اور اب حکومت کی طرف سے یہی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مراد علی شاہ فوری استعفیٰ دیں اور پیپلز پارٹی کا نیا وزیراعلیٰ آنا چاہئے۔
گورنر راج کا تو جواز نہیں مگر اس بات کا بھی کوئی جواز نہیں کہ وزیر اعلیٰ اپنی حکومت ایک نجی گروپ کے پیسے بنانے کے لئے استعمال کررہا تھا وہ عہدے پر بر قرار رہے ۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے بھی جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے وفاقی کابینہ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کا حکم دیا ہوا ہے ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وفاقی کا بینہ نے حقائق تلاش کرنے کے لئے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وفاقی کابینہ وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت ان صوبوں کے وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں شامل کرتی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے ،اس سے قبل سماعت کے دوران جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں مراد علی شاہ کا نام آنے پر صوبہ سندھ میں گورنر راج کا معاملہ بھی آیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے گورنر راج لگایا تو ایک منٹ میں آڑادیا جائے گا۔


پیپلزپارٹی کے اراکین فواد چوہدری سمیت پاکستان تحریک انصاف کے دیگر وزرا کی بیان بازی کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وفاق کا کام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے لیکن یہاں صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی جارہی ہے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی دیگر حکومتوں کو قبول نہیں کرپارہی یہ غیر جمہوری سوچ کے ساتھ حکومت چلانا چاہتے ہیں ۔


قابل غور امریہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت میں تفتیش کے لئے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی )کی رپورٹ میں نامزدزرداری گروپ ،اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن گروپ کی جائیداد کی خرید وفروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کی تھی ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر براہی میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سر براہ نے جب یہ رپورٹ پیش کی تو عدالت کے حکم پر اسے پراجیکٹ پر دکھائی گئی۔


رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک کروڑ 20لاکھ سے ایک کروڑ50لاکھ کا خرچ جعلی بینک اکاؤنٹس سے اداکیا جاتا رہا۔بلاول ہاؤس کے پالتو جانور اور 28صدقے کے بکروں کے اخراجات بھی انہی اکاؤنٹس سے دئیے گئے۔سماعت کے دوران ماڈل ایان علی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات کے اس بیان پر کہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما ان سے رابطے میں ہیں ،ناز بلوچ نے کہا کہ یہ تمام قیاس آرائیاں اور جھوٹ ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز پارٹی قیادت کے ساتھ مضبوط رابطے میں ہیں البتہ خود پی ٹی آئی کے اراکین ہم سے رابطے میں ضرور ہیں ،خیال رہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی 99نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پاس کل 64نشستیں ہیں ،نمبر آف گیم میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف خاصی کمزور دکھائی دیتی ہیلیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سندھ میں سیاسی منظر نامے پر تشویش میں اضافہ ضرور دیکھا جا رہا ہے ،دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کو چند سیٹوں کے اتحاد کی بدولت قائم کمزور حکومت سمجھتے ہیں۔


واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادیوں سمیت 183نشستیں ہیں جبکہ حزب اختلاف کے پاس 159نشستوں کی طاقت ہے ،حقیقت میں حکمران جماعت پی ٹی آئی صوبہ سندھ میں لیڈر شپ کو تبدیل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی غیر رسمی طور پر دعوے کررہی ہے کہ وہ سندھ اسمبلی میں پی پی پی کے اراکین سے رابطے کر رہی ہے تا کہ وہاں پی پی پی کی حکومت کو ختم کیاجا سکے ،ایسا بھی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نہیں غیر جمہوری لیڈر شپ اس اقدام میں ملوث ہے جو بھی آپشنز ہیں انہیں استعمال کرکے پی پی کی سندھ میں حکومت کو ختم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

پی پی پی کی حکومت خطرات کا سامنا کررہی ہے ۔
پی پی مراد علی شاہ کو ہٹانے کے لئے غور نہیں کررہی کیونکہ یہ تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا کہ مراد علی شاہ کرپشن کیسز میں ملوث ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت میں تبدیلی کی جو افوا ہیں منظر عام پر آئی ہیں ان پر کس حد تک عمل ہوتا ہے ،بہر حال ابھی تک پیپلز پارٹی کا اس حوالے سے یہی کہنا ہے کہ انہیں ماضی میں بھی ایسی کارروائیاں کا سامنا پڑتا رہا ہے لہٰذا ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ ہر الزامات کا سامنا خندہ پیشانی سے کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

money laundering scandal is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 January 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.