کیا کپتان کو اِسی ٹیم کے ساتھ کھیلنا چاہیئے؟

شاید نئے لوگوں کو ٹرینڈ ہوتے ہوتے ہی پانچ سال گزر جاتے ،عمران خان نے بھی وہی فیصلہ کیا جو 25سال قبل منڈیلا نے کیا دوسرے آپشن کا استعمال کرتے ہوئے انہی پرانے لوگوں کو ساتھ لے کر چل پڑا

Saad Iftikhar سعد افتخار جمعرات 9 مئی 2019

Kiya Kaptaan ko issi Team k sath khelna chahiye
نیلسن منڈیلا دنیا ئے سیاست میں ایک عظیم لیڈر کے طور پر سامنے آئے ،منڈیلا نے انسانیت کی خدمت کر کے سیا ست دان ہونے کا حق ادا کر دیا ، نہ صرف سیاست کی بلکہ سماجی کاموں میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔نیلسن منڈیلا جولائی 1918کو ساؤ تھ افریقہ کے ایک عام سے گھر میں پیدا ہوئے ،منڈیلا نے ایسے حالات میں آنکھ کھولی جب ان کی قوم گوروں کی غلام کی حیثیت سے زندگی گزار رہی تھی ،چونکہ حکمران گورے تھے تو افریقہ کے قانون میں بھی کئی تضادات پائے جاتے تھے ،گوروں کے لئے قانون الگ تھا جب کہ کالوں کے لئے قانون کوئی اور تھا ،اور ایسے قوانین باقاعدہ طور پر حکومت سے منظور شدہ تھے جس میں کالوں پر بے جا پابندیاں لگا دی جاتیں ،مثلاََکالے کسی قسم کی مراعات نہیں لے سکتے ، کسی اچھے عہدے پر نوکری نہیں کر سکتے ،ملکی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے ،مختصر یہ کہ اگر کوئی کالا خلاف ورزی کرتا تو کڑی سزا بھگتتااور اگر کوئی گورا قانون شکنی کرتا تو اسے استثناء حاصل تھی۔

(جاری ہے)


نیلسن منڈیلا زمانہ طالب علمی سے ہی نیشنل کانگرس کا حصہ بن گئے اور اسوقت اپنی قوم کو جگانا شروع کیا جب وہ ذہنی طور پر تسلیم کر چکی تھی کہ ہم غلام ہی پیدا ہوئے اور غلام ہی مر جائیں گے،منڈیلا نے وکالت کی پڑھائی شروع کی اور قوم کو حوصلہ دینا شروع کیا ، منڈیلا اپنی جدوجہد کے سبب لوگوں میں مقبول ہونا شروع ہو گئے،لوگ بھی منڈیلا کی قیادت میں چلنے کو تیار ہو گئے ،حکومت نے منڈیلا کی بڑھتی ہوئی شہرت سے خائف ہو کر غداری کا مقدمہ بنا کر جیل بھیج دیا ۔

دو سال کی جیل کاٹنے کے بعد منڈیلا نے پھر سے اپنا کام شروع کر دیا اور کالوں کے حقوق کی جنگ لڑنا شروع کر دی ، اب کی بار لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اپنے لیڈر کا ساتھ دینا شروع کیا ۔حکومت نے جب دیکھا کہ یہ شخص تو ہمارے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے ،حکومت نے پھر سے بغاوت کا مقدمہ ڈال کر منڈیلا کو جیل بھیج دیا اوراس دفعہ عمر قید کی سزا سنا دی ۔منڈیلا جس جیل میں گئے وہاں اور بھی بہت سارے افریقی قیدی تھے ،ظاہری سی بات ہے کہ گوروں کی حکومت میں کوئی گورا تو جیل جائے گا نہیں ،سارے کے سارے کالے ہی تھے ۔

منڈیلا نے جیل میں بھی اپنی تحریک کا آغاز کر دیا ،افریقیوں کو شعور دلانا شروع کر دیا ، آئے روز جیل میں ہنگامے اور احتجاج ہونا شروع ہو گئے ،کبھی آزادی کے نعرے اور کبھی حکومت مخالف تقریریں ۔یہ خبر حکومت تک پہنچی تو انہوں نے سوچا کہ یہ شخص تو جہاں پر بھی جائے گا ،ہمارے لئے مسئلے ہی پیدا کرے گا ،لہذا اسکا علاج یہی ہے کہ اسے قید تنہائی میں ڈال دیا جائے اور قید تنہائی بھی اس شدت کی زمین سے ہزاروں میل دور سمندر میں بحری جیل میں قید کر دیا ،جہاں پر نہ تو زمین دیکھی جا سکتی تھی اور نہ ہی کھل کر آسماں،نہ چاند کبھی دیکھنے کو ملتا اور نہ ہی تارے ،نہ چرند نہ پرند، یہاں تک کہ چند شکلوں کے علاوہ کوئی انسان بھی نہ دیکھنے کو ملتا ۔

سائنس کہتی ہے کہ انسان کواگر فزیکلی مارنا ہو تو تنہائی اس کے لئے کافی ہے اور منڈیلا نے تقریبا 18سال قید تنہائی کاٹی ،لیکن جب پیچھے کوئی مقصد بڑا ہو تو پھر یہ سب چیزیں بھی انسان کو کبھی مات نہیں دے سکتی۔
منڈیلا نے تقریبا 28سا ل جیل کاٹی ، جس میں 18سال قید تنہائی کے تھے،کہا جاتا ہے کہ سیاسی تاریخ کی یہ سب سے بڑی جیل تھی ،جو منڈیلا نے کاٹی ،28سال کے بعد حکومت تبدیل ہوئی تو نئی حکومت نے حکم جاری کیا کہ جتنے قیدی کسی چھوٹے موٹے کیس میں قید ہیں سب کو رہا کر دیا جائے ،منڈیلا کو بھی اس کی محنت کا پھل ملنا تھا ،اس لئے وہ رہائی اس کے حصہ میں بھی آئی ،28سال بعد جب قوم نے اپنے لیڈر کو پھر سے اپنے اندر پایا ،تو اب کی بار ان کا جذبہ حریت قابل دیدنی تھا ،منڈیلا نام کا شخص افریقہ کے ہر گھر میں پہنچ چکا تھا ،کیونکہ منڈیلا کی وجہ شہرت کا ذریعہ اس کا نظریہ بنا ۔


1994کے انتخابات میں افریقن نیشنل پارٹی نے بھاری اکثریت سے الیکشن جیتا اور یوں منڈیلا پہلے افریقی (سیاہ فارم)صدر بنے ،کالے اقتدار میں آگئے اور گورے اب محکوم بن گئے ،گورے اب اس انتظار میں تھے کہ کب شاہی فرمان جاری ہو اور وہی جیلیں اب ہمارا مقدر بنیں جہاں ہم نے افریقیوں پر مظالم ڈھائے تھے ۔منڈیلا کے پاس حکومت چلانے کے لئے دو آپشن تھے ۔

پہلا یہ کہ وہ سارے گوروں کو جیل میں ڈال دے اور ان سے اپنی قوم پر کئے گئے مظالم کا گن گن کر بدلہ لے ،اور دوسرا آپشن یہ تھا کہ وہ گوروں کو معاف کر کے انہی گوروں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو وہی سے چلاتا جہاں پر ملکی گاڑی کا پہیہ رکا تھا ،اب اگر منڈیلا پہلے آپشن کا استعمال کرتا اور سارے گوروں کو جیل میں ڈال دیتا تو اس میں ملک کا نقصان تھا کیونکہ ہر محکمے کو گورے ہی تو چلا رہے تھے،وہ اس آنے والے نئے (افریقی)سے بہتر اس کے بارے میں جانتے تھے ،تو اگر وہ بدلہ لیتا تو ہر محکمے میں نئے لوگ لانے پڑتے جو ٹرینڈہوتے ہوتے شاید سالوں لگا دیتے اور اس طرح ملک ان سالوں میں بہت پیچھے چلا جاتا ،لہذا منڈیلا نے دوسرا آپشن استعمال کیا اور سارے گوروں کو معاف کر دیا ،اپنے ملک کو وہی سے چلانا شروع کیا جہاں پر وہ رُکا تھا ،صدر کے آفیشل گارڈ بھی گورے ہوتے تھے ،منڈیلا نے یہاں تک فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ اپنے وہ پرسنل گارڈ تک نہ تبدیل کئے ،منڈیلا کے اس ایک فیصلے سے ساؤتھ افریقہ نے اس قدر ترقی کی کہ پھر جہاں نے دیکھا ۔


اسوقت ہمارے ملک کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے ،عمران خان 22سا ل کی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آیا ،اب اس کے پاس بھی دو ہی آپشن تھے کہ یا تو وہ سارے کرپٹ لوگوں کو جیل میں ڈال کر نئے لوگوں کے ساتھ حکومت چلائے اور دوسرا آپشن یہ تھا کہ انہی لوگوں کے ساتھ مل کر ملک کو وہی سے چلائے جہاں پر کبھی وہ رُکا تھا ،اگر پہلا آپشن استعمال کرتاہے تو شاید نئے لوگوں کو ٹرینڈ ہوتے ہوتے ہی پانچ سال گزر جاتے ،عمران خان نے بھی وہی فیصلہ کیا جو 25سال قبل منڈیلا نے کیا دوسرے آپشن کا استعمال کرتے ہوئے انہی پرانے لوگوں کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔


ویسے بھی آج کے اس مادہ پرست دور میں اگر کسی کو کہا جائے کہ وہ اپنے محلے سے 10ایماندار لوگوں کو اکٹھا کر لائے تو یہ کام کرتے کرتے بھی شاید مہینے لگ جائیں ،کیونکہ آج ایماندار اکٹھے کرنا بھی بہت مشکل کام ہے ۔
25سال پہلے جو فیصلہ منڈیلا نے کیا ،آج 8ماہ پہلے وہی فیصلہ عمران خان نے بھی کیا کہ وہ اسی ٹیم کے ساتھ ہی کھیلے گا ،کیونکہ اسی فیصلے میں ہی ملک کی بہتری تھی ۔

بظاہر تو یہ دونوں فیصلے ہی بڑے کڑوے ہیں ،منڈیلا کو بھی اس کی قوم نے کہا ہو گا کہ جن گوروں نے ساڑھے تین سو سال سے ہماری زندگیاں اجیرن بنائی رکھیں ،آج وہی تیرے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔آج ہم بھی عمران خان کو کہتے ہیں کہ جو لوگ مشرف کے ساتھی تھے آج وہی تیری کابینہ کا حصہ ہیں ، جو لوگ زرداری کے ساتھی تھے آج وہی تیرے ساتھی ہیں ،جو لوگ کل کو نواز شریف کے ساتھ تھے آج وہی تیرے ساتھ ہیں ؟ لیکن شاید اسی میں ہی بہتری ہے ۔

اسد عمر ایک قابل آدمی ہے لیکن پھر بھی حفیظ شیخ کواس کی جگہ لانا پڑا ،فواد چوہدری ایک اچھا سپوک پرسن ہے لیکن فردوس عاشق اعوان ہی اطلاعات کیلئے موزوں ہیں ۔اسی طرح وزیر خارجہ کے لئے شاہ محمود قریشی سے بہتر آپشن عمران خان کے پاس اور نہیں،یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ یہ لوگ انہی عہدوں پر پہلے بھی کام کر چکے ہیں۔
کچھ فیصلے اپنا اثر تھوڑی دیر بعد دکھاتے ہیں لیکن اس میں بھی ایک حکمت پوشیدہ ہوتی ۔ہمیں حکومت پر تنقید کرنی چاہیئے کیونکہ یہ ہمارا حق ہے ،لیکن صرف تنقید ہی نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے ۔برے کو برا کہیں اچھے کو اچھا ،یہی ایک اچھے معاشرے کی خصوصیات ہیں ۔حکومتی کابینہ پر تنقید کرنے کی بجائے حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنی چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kiya Kaptaan ko issi Team k sath khelna chahiye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.