بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کون کرے گا

صوبے میں امن و امان کی گھمبیر صورتحال سمیت قلت آب و دیگر مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں

ہفتہ 26 جون 2021

Balochistan Ki Mehromiyon Ka Azala Kon Kare Ga
محمد عبداللہ حمید گل
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بلوچستان کی ترقی میں ہی پاکستان کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔افسوس قدرتی وسائل بالخصوص ریکوڈک ذخائر،قدرتی گیس و دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال صوبہ گزشتہ 73 سالوں سے مسلسل عدم توجہی کا شکار ہے اور اس کی ایک کروڑ کے لگ بھگ آبادی تعلیم،صحت اور بنیادی حقوق سے کوسوں دور ہے۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان کا رقبہ ملکی رقبے کا تقریباً 46 فیصد ہے۔سوئی سمیت خاران،بولان،قلات،ژوب،کوہلو اور زرغون میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کی 56 فیصد گیس کی ضروریات یہی سے پوری ہوتی ہیں مگر صوبے کے 34 اضلاع میں صرف 20 اضلاع کو گیس میسر ہے۔یہاں تک کہ سوئی سے 4 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود آبادی بھی اس نعمت سے محروم ہے۔

(جاری ہے)

ایٹمی دھماکے کی سرزمین چاغی گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔آج تک اس کو وہ حق نہ مل سکا جو چاہیے تھا۔سندھ کے بعد کوئلہ کی پیداوار بلوچستان دوسرے نمبر پر ہے۔دیگر قدرتی وسائل میں کرومائیٹ،جپسم،ماربل بھی بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔اس کے باوجود صوبے کے 85 فیصد دیہات غریبی و بدحالی کے انتہائی نچلے درجے پر ہیں۔خوبصورت وادی کوئٹہ برطانوی دور حکومت میں انگریز بھی جس کے حسن کے دلدادہ تھے،گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

اس کی صفائی کی صورتحال نہایت خراب ہے۔کوئٹہ سے میرے بچپن کی بھی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں،جب آبشاروں کا شور سنائی دیتا تھا۔میٹھے پانی کے چشمے بہتے تھے آج اس کی حالت زاد دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔چونکہ یہاں کا موسم وطن عزیز کے باقی حصوں کی نسبت عموماً خشک اور بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔بے ہنگم آبادی،طویل خشک سالی اور بغیر منصوبہ بندی کے نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قیام کی بدولت پانی کی کمی سنگین تر ہو چکی ہے۔

ان کے پاس زمینی پانی کو ری چارج کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔دھڑا دھڑ کھدائی اور ڈارلنگ سے ”واٹر ٹیبل“ گر رہا ہے۔
آبی بحران میں مبتلا کوئٹہ سمیت بلوچستان کے باسی ”آب اندوخت“،فوسل واٹر“ (جواثیم ہزاروں سالوں میں پیدا ہونے والی سخت چٹانوں میں تازہ پانی کے زیر زمین ذخائر) کے اندر گہرائی میں کھدائی کرنے پر مجبور ہیں۔کوئٹہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہتر کرنے کے لئے 129 چیک ڈیموں کی تعمیر کا تیار منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہے۔

زراعت کے لئے سولر ٹیوب ویل اور دیگر ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں مگر وہ پانی کی کمی کا ستقل حل نہیں۔ابھی تک بلوچستان غذائی پیداوار میں بھی خود کفیل نہیں ہو سکا۔قلت آب کے ساتھ دیگر مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں ناصرف کوئٹہ،مستونگ،قلات،زیارت،چاغی اور چمن تو اجڑے چمن کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ صوبے کی تعلیمی زبوں حالی کو گھوسٹ سکولوں نے اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے بلاشبہ سی پیک کا انقلابی منصوبہ پسماندگی کا شکار بلوچستان کی ترقی کی نوید ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے چین کے تحفظات روانہ کئے جا سکے اور تمام تر ذمہ داری بیجنگ پر ڈال کر ہمارے حکمران بری الذمہ ہو چکے ہیں۔

سی پیک کا مرکز ”گوادر“ بھی یکساں نظر انداز ہے اس کے اہم مسائل جوں کے توں ہیں صرف ’فشریز‘ ہی تو علاقے کی ترقی کی ضامن نہیں یہاں کے باشندوں کو صاف پینے کا پانی بھی درکار ہے۔شعبہ کان کنی میں اصلاحات کے ساتھ وہاں کام کرنے والوں کان کنوں سمیت کول مائنز میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کے تحفظ کا معاملہ ترجیعی بنیادوں پر حل ہونا وقت کا تقاضا ہے۔

خشک سالی سے سیب کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔اگر فوری طور پر پانی کے بحران کے بارے میں کچھ نہیں کیا تو صوبے میں سیبوں کے باغات بالکل ختم ہو جائے گے۔
بلوچستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسمگلنگ میں ملوث ہے،سر عام اسمگل شدہ ایرانی پٹرول کی ارزاں نرخوں پر فروخت جاری ہے۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد ڈرک اسمگلنگ کا گڑھ ہے یو اے ای سے براستہ کوسٹل ہائی وے دیگر نشہ آور اشیاء بالخصوص شراب کی ہر تیسرے روز 45 کروڑ سے زائد کی غیر قانونی ترسیل ہوتی ہے۔

یہاں رائج فرسودہ سرداری نظام میں عام آدمی کا استحصال ہو رہا ہے،کئی سردار بلوچ عوام کو اپنی کٹھ پتلیاں سمجھتے ہیں اسی لئے انہیں تعلیم و تربیت اور جدید سہولتوں سے دور رکھتے ہیں۔سرداری نظام نے بلوچستان کے لاء اینڈ آرڈر سسٹم کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔صوبے کے وسائل ہڑپ کر لئے گئے،ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔حکومتی فنڈز کا عام آدمی کو ذرا سا بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔

دوسری جانب صوبے میں بلوچ و پشتون قبائل کے مابین بڑھتی تفریق سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔بلوچستان کی مجموعی آبادی کا 42 فیصد بلوچ بیلٹ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ پشتون آبادی،براہوی و دیگر اقلیتی برادری ہزارہ جات کو Neglect کیا جا رہا ہے۔سی پیک منصوبے کیلئے پورے ملک میں ماسوائے بلوچستان چینی زبان کے کورسز کروائے جا رہے ہیں،اس پسماندہ صوبے میں بھی چین لینگوئج کیلئے انسٹی ٹیوٹ قائم کئے جائیں۔


پاک فوج کی جانب سے قومی دھارے میں لانے کے لئے علیحدگی پسند ہتھیار ڈالنے والوں کے لئے ملٹری ورکشاپ،تربیتی مراکز کا قیام خوش آئند ہے،اس کے علاوہ بلوچستان کی غیور بہادر عوام کی فوج میں نمائندگی کیلئے متعدد نوجوانوں کو ISSB کے ذریعے سلیکٹ کرکے کمیشن آفیسر کے طور پاک فوج کا حصہ بنایا۔ ضروری ہے کہ بلا تفریق بلوچستان کے تمام نوجوانوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔

صرف پاکستان مردہ باد کا نعرے لگانے والوں کے لئے ہی مراعات کیوں؟کیا محب وطن افراد کا یہ حق نہیں کہ انہیں بھئی ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں۔وگرنہ اس ناانصافی پر انہیں ٹی ایل پی کی سازش کا حصہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔نوجوان طبقے کو چھوٹے کاروبار کے لئے سرمایہ دینا چاہئے تاکہ ان کا حکومت پر اعتماد بحال ہو اور وہ شرپسندوں کے چنگل سے نکل کر صوبے کی ترقی کے لئے بہتر امور سر انجام دے سکیں۔

بے روزگاری کے عفریت پر قابو پانے کیلئے انڈسٹریز کا قیام ناگزیر ہے اس لئے فروٹ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہئے۔میرا حکومت وقت کو ادنیٰ سا مشورہ ہے کہ صوبے میں زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگانے کے مواقع پیدا کرتے ہوئے اسے آئندہ پانچ سال کیلئے ٹیکس فری زون بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Balochistan Ki Mehromiyon Ka Azala Kon Kare Ga is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.