اعراب
اعراب عربی زبان کا لفظ ہے جو بطور جمع ہی مستعمل ہے، اس کی واحد اعرب ہوتی ہے اور یہ لفظ، عرب، سے ماخوذ ہے جس کے معنوں میں عام عرب قوم کے معنوں کے ساتھ ساتھ اس کے لفظی معنوں سے اعرب اور اعراب کے الفاظ ماخوذ کیے جاتے ہیں اور وہ لفظی معنی ہیں فصاحت اور زبان کی وضاحت کے ہوتے ہیں، جبکہ خود لفظ عرب کے بنیادی معنی صحرا کی سکونت رکھنے والے کے ہوتے ہیں اور آج کل یہ لفظ عام طور پر محض عرب قوم تک ہی مخصوص ہو چکا ہے۔ لہذا یوں کہا جا سکتا ہے کہ اعراب کا مطلب حروف پر لگائی جانے والی وہ علامات و آواز کی حرکات ہوتی ہیں جو زبان کو عربی یعنی فصیح (بالعکس عجمی) بنانے کے لیے اختیار کی جاتی ہیں۔ اور ان کی مدد سے زبان میں موجود صوتی تراکیب و تغیرات الکلام واضح کیے جاتے ہیں۔ اعراب کو حرکات بھی کہا جاتا ہے جس کی واحد حرکۃ آتی ہے۔ مزید یہ کے قواعد کی کتب میں اعراب کے لیے تشکیل (formating) کی اصطلاح بھی آتی ہے۔ انگریزی میں اس قسم کی صوتی علامات کو diacritic کہتے ہیں۔
اقسام اعراب
[ترمیم]زبر/فتحہ
[ترمیم]الف کی آواز دیتی ہے۔ علامت َ ہے۔ مثلاً جَب، سَب
زیر/کسرہ
[ترمیم]چھوٹی ی کی آواز دیتی ہے۔ مثلاً کِس، جِس
بڑی زیر/کسرہ مجہول
[ترمیم]بڑی ے کی آواز دیتی ہے۔ سرائیکی زبان میں مستعمل ہے۔ اسے سرائیکی میں وݙی زیر اوراردو میں کسرہ مجہول کہتے ہیں۔[1][2]
پیش/ضمہ
[ترمیم]و کی آواز دیتی ہے مثلاً: اُس۔
بڑی پیش/ضمہ مجہول
[ترمیم]سرائیکی میں وݙی پیش اردو میں ضمہ مجہول کہتے ہیں۔[3]
تنوین
[ترمیم]اکٹھى دو زبر يا دو زير يا دو پيش کو تنوين کہتے ہیں، مثلاً ((مُحَمَّدٌ)) حرف ((د)) پر تنوين ہے۔
سکون یا جذم
[ترمیم]جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر ہے، وہ حرف جو متحرک نہ ہو وہ ساکن کہلاتا ہے۔ ہر لفظ متحرک اور ساکن حروف سے مل کر بنتا ہے۔ ساکن حرف پر جو علامت اِرقام کی جاتی ہے اسے سکون (۔ ) یا جزم کہتے ہیں مثلاً انسان میں "ن" ساکن ہے یا کمال میں ل ساکن ہے۔ عموماً اردو الفاظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے۔
3 تشدید: ( ّ)
کسی لفظ میں جب کوئی حرف ایک ساتھ دوبار پڑھا جائے تو اسے دوبار اِرقام کرنے کی بجائے اس پر تشدید کی علامت اِرقام کی جاتی ہے۔ اس صورت میں پہلا حرف ساکن جبکہ دوسرا متحرک ہوتا ہے۔ جس لفظ پر تشدید اِرقام کی جائے اسے 'مشّدد' کہتے ہیں مثلاً منوّرہ کے لفظ میں "و" مشدد ہے