جو میں سچ کہوں تو برا لگے

منگل 28 اپریل 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

فرمان ہے ،جاہل سے بحث کرنے سے بہتر ہے معافی مانگ لو۔تو ایک شریف النفس ، اعلی ظرف اور اللہ کے نیک برگزیدہ بندے نے یہی راستہ اختیار کیا اور معافی مانگ لی کے قوم کی دل آزاری نہ ہو۔ مگر سوچنے کی بات اس کے بعد شروع ہوتی ہے کہ ہم اور ہماری قوم کہاں کھڑے ہیں؟ہماری اقدار کیا ہیں؟ہم بحیثیت قوم کتنی مہذب اور با شعور قوم ہیں؟ اعلی ظرفی، عاجزی، انکساری ، تو ہمارے دور سے بھی نہیں گزری شائید کبھی۔

حاکم ِ وقت وزیر ِ اعظم عمران خان صاحب نے مولانا طارق جمیل کو بلا یا انہیں حاضر ہونا پڑا ۔وزیرِاعظم کے ٹیلی تھون میں کی گئی دعا کے بعد ایک طوفان کھڑا ہوگیا ، جس میں ہماری صحافی برادری کے کچھ لوگ کچھ ہمارا لبرل طبقہ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر شور مچا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

مولانا کی ساری دعا سننے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچی کہ اس دعا میں غلط کیا اور کہاں تھا؟کیا ہم بحیثیت قوم جھوٹے ،چور،دھوکہ باز، منافق، بلیک میلر، ذخیرہ اندوز، رشوت خور ، شرابی نہیں ہیں؟ بات جو لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دعا میں فرق ہوتا ہے۔

اجتماعی دعا تو ایسی ہی ہوتی ہے۔ انفرادی دعا میں کیا ہم نہیں کہتے کہ اے رب خطا کار ہوں، گناہ گار ہوں، تیرا ہی بندہ ہوں مجھے معاف فرما دے۔یا کہتے ہیں اے اللہ میں چودہری ہوں، میں وڈیرا ہوں، میں حاجی غازی نمازی ہوں، عبادت گزار ہوں وغیرہ۔۔۔!!
انسان جب بھی دعا مانگتا ہے لازمی امر ہے کہ رب العزت کی بارگاہ میں رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے ان کا اعتراف کرتا ہے۔

انسان کے آنسووں میں لفظوں میں عاجزی، جتنی ندامت ہو گی ، رب ِ کائنات کی بارگاہ میں وہ دعا اتنی ہی باریاب ہوگی۔ جب اجتماعی دعا کرتے ہیں تو اجتماعی غلطیوں،کوتاہیوں،گناہوں کی معافی مانگتے ہیں،اور یہی مولانا طارق جمیل صاحب نے دعا میں رو رو کے گڑگڑا کے رب سے سب کے گناہوں کی معافی طلب کی،اس دعا میں انہوں نے خود کو بھی شامل کیا کی یا اللہ میں حق ادا نہیں کر سکا۔

میں تیرا پیغام ان تک سہی طریقے سے پہنچا نہیں سکا ،سیکھا نہیں سکا مجھے معاف کر دے مجھے بحش دے۔۔۔!انگلی اٹھانے سے پہلے کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی اور ٹھاٹھ سے کہہ دیا مولانا عمران خان کے حامی ہیں، اور ہر حکومت میں ہر حاکم کے حامی و ساتھی ہوتے ہیں۔بس انہیں اچھا کہا باقی قوم چور!!!!!یہ جاننے کی کوشش کیے بغیر کے مولانا کبھی کسی ذاتی وجہ یا ذاتی بنیاد پر کسی حکمران پر انگلی نہیں اٹھاتے۔

انہوں نے کسی وجود پر تنقید نہیں کی۔ وہ شخص کسی پر ذاتی حوالے سے تنقید کر ہی کیسے سکتا ہے جو ہمیشہ امن کی، بھائی چارے کی، مساوات کی، عدل کی، ماں باپ، بہن بھائیوں کی عزت کی، بہن کے حقوق کی ، عورت کی عزت اس کے حقوق کی ،حقوق العباد کی بات کرتا ہے۔ اللہ کی ذات سے ڈرانے کی بجائے اللہ کی ذات سے محبت کرنا سیکھاتا ہے۔ رب کی طرف بلاتا ہے، کہ وہ ستر ماوؤ ں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس سے طلب کرلو وہ عطا کرئے گا۔

وہ ندامت کے آنسو واپس نہیں موڑتا۔
افسوس ہم اتنے بے حس ہیں کے ایک عالم ِ دین کے قوم کے حق میں بہنے والے آنسووں کا مذاق بنا دیا،ان آنسووں کو بھی نہیں بخشا۔ تو ہمیں مولانا طارق جمیل صاحب پر نہیں ، اپنے ایمان کی خیر منانے کی ضرورت ہے۔ صحافی برادری اور لبرلز کے نہایت افسوس ناک پیغامات،ٹویٹس نے قوم کو نہایت غلط پیغام دیا۔ اور ان لوگوں نے موجودہ وقت کے ایک نہایت نیک اللہ کے بندے سے معافی منگوا ئی ور مولانا صاحب کو اس دعا کے لیے شرمندہ کر دیا جو پوری قوم کے لئے تھی۔

مولانا صاحب وہ انسان ہیں جنہوں نے معاشرے کی ہر برائی کے خلاف بات کی، جنہوں نے عدالتی نظام کے ظلم و ستم پر کھل کر بات کی۔ اللہ کے نظام اور آئین کے سامنے دنیا کے تما م نظام اور آئین ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ہر دور کے حکمران اور آرمی چیف نے اس نیک بندے کی عزت کی،جس طرح مولانا صاحب نے قرآن پاک کی، اسلام کی، نبیﷺ کی تعلیمات کی سادہ تشریح کر لاکھوں غیر مسلموں کو رب کی مدد سے دائرہ ِ اسلام میں داخل کیا۔

آج اپنے ملک کو مصیبت میں گھرے دیکھا تو اجتماعی طور پر رب سے معافی مانگی کہ یا اللہ تو ناراض ہی ہو گیا ہے ہم سے ہمیں معاف کر دے۔معاشرتی بگاڑ کے خلاف اللہ کی مدد مانگی تو کہاں غلط کیا؟
کسی کے ذاتی گناہ پہ تنقید کا نشانہ بنائیں ۔مولانا نے کہا بحیثیت قوم ہم جھوٹے ہیں۔جب ایسی بات ہو تو بحیثیت قوم کے ہی روئیہ دیکھا جاتا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کے تمام لوگ برے ہیں،اس دعا میں سب شامل تھے مسئلہ صرف انکو ہوا جنکو لگا کے یہ ہمارے لئے کہا گیا۔

چور کی داڑھی میں تنکا کا محاورہ یہاں سہی صادر آتا ہے۔ مولانا کی دعا کے بعد الیکٹرونک میڈیا، سوشل مڈیا،لبرلز،مختلف مسلکوں نے سیاسی اور ذاتی بنیاد پر مولانا صاحب کو اتنا تنقید کا نشانہ بنایا کہ مولانا صاحب کو اپنی کی گئی دعا پہ معافی مانگنی پڑی۔ معذرت کے ساتھ یہ معافی کسی کی جیت نہیں ہے کیونکہ مولانا صاحب نے تو اعلی ظرفی کا مظاہرہ کر کے دلائل ہونے کے باوجود معافی مانگ لی۔

نہایت شائستہ الفاظ میں لکھوں تو راستہ خار دار ہو کیچڑ سے بھرا ہو تو ایک نیک انسان اسی میں عافیت جانتا ہے کے اپنے آپ کو اپنے کپڑوں کو بچا کے گزر جائے، مولانا نے بھی اس قوم کو ان کے اعمال کے حوالے کر دیا۔ پر ان کا سچ پورے پاکستان میں گونج رہا ہے۔مولانا صاحب نے جنکو جھوٹا کہا انہیں پتہ ہے ، جنہیں چور کہا انہیں بھی پتہ ہے۔ جنکو کہا کہ عورتوں کے کپڑے ، عورتوں کو کس نے نچایا،سڑکوں پہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگائے، سب کوسب پتہ ہے۔

Û”Û”!!
راحت اندوری کا ایک واقعہ یہاں یاد آیا کہ ایک مشاعرے میں انہوں نے کہہ دیا سرکار چور ہے۔۔۔ اگلے دن پولیس اسٹیشن پر ان کو بلا لیا گیا۔ افسر نے پوچھا کہ آپ نے مشاعرے میں رات یہ کہا کہ سرکا ر چور ہے؟ راحت صاحب نے کہا ،ہاں جی میں نے کہا کہ سرکا چور ہے۔ لیکن۔۔۔ یہ نہیں کہا کہ سرکار ہندوستان اور پاکستان کی چور ہے یاامریکہ کی سرکار یا برطانیہ کی سرکارچور ہے۔

افسر راحت اندوری صاحب کو دیکھ کر مسکرائے اور کہا ، اچھا ،آپ ہمیں بے وقوف بھی سمجھتے ہیں۔ کیا ہمیں نہیں پتہ کہ سرکار کہاں کی چور ہے!!!!۔اسی طرح مولانا صاحب نے نام تو کسی کا نہیں لیا تو کچھ ٹی وی چینل کچھ صحافی کچھ لبرل پرسنل کیوں لے رہے ہیں؟؟؟
اللہ ہمارا ہماری قوم کا حامی و ناصر ہو ،ہدایت دے،علماء دین کا حال تو ہم یہ کرتے ہیں ۔ شائید مولانا جیسے چند نیک مخلص لوگوں کی وجہ سے ہم اللہ کے کسی بڑے عتاب سے بچے ہوئے ہیں۔

مورخ لکھے گا کہ ایک ایسی قوم ہیں ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں چور کو چور اور جھوٹے کو جھوٹا کہنے پر ایک مبلغ اور عالم ِ دین کو معافی مانگنی پڑی،جو اس بات کی دلیل ہے کہ۔۔
جو میں سچ کہوں تو برا لگے،جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کہ زد میں ہے، یہاں بات کرنا فضول ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :