حکومت بحران کا شکار‎‎

منگل 28 دسمبر 2021

Mohammad Bashir

محمد بشیر

اس وقت سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے. آصف علی زرداری نے نیازی سرکار کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے. انہوں نے نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب کو بھی تسخیر کرنے کا عندیہ دیا ہے. زرداری صاحب کا اچانک متحرک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ حکومت کو" سرپرستوں" نے بیچ منجدھار اکیلا چھوڑ دیا ہے. صوبہ کے پی کے چونکا دینے والے بلدیاتی نتائج نے بھی اپوزیشن کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ہے.

اسی لیے وہ خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئی ہے.
کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق کی ایک ادارے کے بڑے کے ساتھ ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تھی. جس کا میڈیا نے کچھ زیادہ نوٹس تو نہیں لیا. مگر سابق سپیکر کی لندن روانگی اور میاں نوازشریف کے ساتھ ملاقات نے سب کے کان کھڑے کردیے ہیں. بعض ذرایع یہ بھی بتا رہے ہیں. کہ ایاز صادق نے نوازشریف کو تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بیس سے زائد اراکین قومی اسمبلی کی ایک لسٹ پیش کی ہے.

جو ن لیگ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں. مگر انہوں نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ ان کو ٹکٹ جاری کرے گی. نوازشریف نے جوابا´ کہا ہے کہ یہ اراکین پہلے اپنی رکنیت سے استعفی دے کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کریں. جہاں تک پارٹی ٹکٹ کا تعلق ہے عام انتخابات میں گراؤنڈ سچوایشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا. کہ کس کو ٹکٹ دینا ہے اور کس کو نہیں.
دوسری طرف صوبہ کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں جے یوآئی کی جیت , آصف زرداری اور شہبازشریف کے اچانک متحرک ہونے پر وزیراعظم بڑے برہم دکھائی دے رہے ہیں.

انہوں نے پارٹی کے اجلاس میں یہ کہا ہے کہ نوازشریف کی واپسی اور ان کی سزا معاف ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں. خان صاحب نے اس موقع پر یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایک مجرم کی سزا کس قانون کے تحت معاف کی جا سکتی ہے. اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے بھی کھول دیے جاہیں. خان صاحب کو بڑے عرصے بعد اتنا برہم اور بےچین دیکھا گیا ہے. زرداری صاحب کے اچانک متحرک ہونے اور نوازشریف کی واپسی کی خبروں پر وہ گبھراہٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں.

انہیں شائد اس بات کا یقین نہیں تھا کہ اپوزیشن ایک دم ان کے خلاف حرکت میں آ جائے گی.
ماضی میں  ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے وقت جب معاملہ الجھ گیا تھا. اس وقت تو وزیراعظم بڑے پراعتماد دکھائی دیتے تھے. انہوں نے اپنے رفقاء کو نہ گھبرانے کی تلقین بھی کی تھی.  اس کے علاوہ پچھلے مہینے تھوک کے حساب سے جو قانون سازی ہوئی تھی.

اس  وقت بھی ان کا مورال بڑا ہائی تھا. اب یکایک ایسا کیا ہوگیا ہے. کہ اپنے آپ کو دلیر کپتان سمجھنے والے کے منہ سے مایوسی کی باتیں نکل رہی ہیں. کہیں مولانا فضل الرحمن کی یہ بات درست تو نہیں ہے کہ وزیراعظم  کے سرپرستوں نے اپنا دست شفقت ان کے سر سے ہٹا دیا ہے. کیا صفحہ واقعی پھٹ چکا ہے. پشاور کے ضلعی ناظم کے الیکشن میں تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار کی جے یو آئی امیدوار کے ہاتھوں بھاری مارجن سے شکست سے بھی ادارے کے نیوٹرل ہونے کے واضع آثار دکھائی دے رہے ہیں.

یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ پشاور میں عمران خان کے "خاص دوست "کی موجودگی کے باوجود ان کا امیدوار پٹ جائے. اسی وجہ سے خان صاحب کا چہرہ اترا ہوا دکھائی دیتا ہے. مبصرین کے مطابق ان کے خاص بندے نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی تبدیل شدہ حکمت عملی سے وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے
لاہور میں خواجہ رفیق کی برسی کے موقع پر  منعقدہ سیمینار میں میاں شہباز شریف اور ن لیگ کے دیگر مقررین نے حکومتی پالیسیوں پر  کڑی تنقید کی ہے.

چھوٹے میاں صاحب اس دفعہ بڑے جارہانہ موڈ میں دکھائی دیے. انہوں نے قوم کو لنگوٹ کس کر  تیار رہنے کا بھی کہہ دیا ہے.
ایاز صادق  بھی لندن سے واپسی پر بڑے مطمہن دکھائی دیتے ہیں. انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں نوازشریف کی جلد واپسی کا  اعلان بھی کیا ہے. سابق سپیکر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ جنوری میں عازم لندن ہوں گے. اور ہوسکتا ہے وہ نوازشریف کو اپنے ساتھ لے کر واپس لوٹیں.
اس سیاسی ڈیویلپمنٹ  کے باوجود ن لیگ کی صفوں میں وزیراعظم کے منصب پر دراڑ نظر آ رہی ہے.

میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے شائد خاقان عباسی نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا تذکرہ کیا تھا. کہ بطور صدر ن لیگ میاں شہبازشریف آئندہ وزیراعظم کا منصب سنبھالیں گے. عباسی صاحب کے اس بیان نے کافی دنوں تک میڈیا پر رونق لگائے رکھی. مگر مریم نواز نے اسلام آباد میں ایک پریس ٹاک کے ذریعے یہ کہہ کر ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے.

وزیراعظم کے امیدوار کا فیصلہ نوازشریف کریں گے. جو شہبازشریف سمیت سب کو قبول ہوگا. مریم نواز نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا شہبازشریف اگر وزیراعظم بنتے ہیں تو یہ خوشی کی بات ہوگی. مگر ان کی باڈی لینگویج سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا تھا.  کہ شائد خاقان عباسی کی بات ان کو پسند نہیں آئی.
علاوہ ازیں نوازشریف کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ وزیراعظم کا منصب شہباز شریف سنبھالیں.

دراصل وہ اپنی نااہلی اور احتساب عدالت سے دی گئی سزا کو ختم کرانے کے خواہش مند ہیں. تاکہ وہ چوتھی دفعہ وزیراعظم کا منصب سنبھال سکیں. وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مریم کو اس عہدے کے لیے نامزد کرنے کی صورت میں پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو سکتی ہے.
اگر صوبہ کے پی کے بلدیاتی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ لوگ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے اکتا چکے ہیں.

کیوں کہ ان دو بڑی پارٹیوں کی وجہ سے اپوزیشن ایک متفقہ موقف مرتب کرنے میں ناکام رہی. جس کی وجہ سے ایک مضبوط اپوزیشن تاریخ کی کمزور ترین حکومت کے سامنے بھیگی بلی بنی رہی. اور عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کے چنگل میں پھنسا رہا.
دوسری طرف مولانا فضل الرحمان کی دبنگ پالیسی اور ایک واضع موقف کو عوام نے بہت سراہا ہے. اسی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں جے یو آئی چونکا دینے والے انتخابی نتائج دینے میں کامیاب ہوسکتی ہے�

(جاری ہے)

�

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :