محرم سے مجرم کیسے

بدھ 2 فروری 2022

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور میں انسداد بد عنوانی پہلی ترجیح قرار دے کر انتخابی میدان میں اتری تھی، ساڑھے تین سال کی حکومت کے دوران انسداد بد عنوانی پہلی ترجیح کہیں دکھائی نہیں دی، وزیر صحت اور مشیر صحت ادویات کی قیمتوں کے اسکینڈل کے باعث حکومت سے بر طرف ہوئے، راولپنڈی رنگ روڈ کیس میں زلفی بخاری کو عہدہ چھوڑنا پڑا، فردوس عاشق اعوان پر بھی انہی الزامات پر عہدے سے الگ کی گئیں، لیکن کسی کے خلاف کوئی ریفرنس نیب میں بنا اور نہ حکومتی مشینری حرکت میں آئی، اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں گمبھیر نشاندہی کی گئی جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ”کرپشن کے خاتمے کا وعدہ تین ماہ میں پورا کر دیا تھا“ وزیر اعظم کے جواب کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ملک میں سب اچھا ہے ان کے بیان میںآ ٹے، چینی، گھی، دالوں، یوریا کی ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ کے علاوہ جان بچانے والی ادویاتکی مصنوعی قلت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا، عوام کی زبان میں اس بیان کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے زمینی حقائق جو بھی ہوں، حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ملک میں آٹے، چینی اور دوسری ضروری اشیا کی قلت و مہنگائی تکلیف دہ روپ اختیار کرچکی ہے لیکن تحریک انصاف کا موقف یہی ہے کہ ہماری حکومت دوسروں سے ممتاز ہے کیونکہ عارضی شیلٹر ہومز بنا دیے ہیں ہیلتھ کارڈ اور احساس کارڈ تقسیم کردیے گئے اور ملک میں تنخواہ دار طبقہ گزارہ کرے کیونکہ سکون تو قبر میں ملے گا یہ فکرانگیز موقف ہر شہری کو حکومت کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنی معاشی منصوبہ بندی اس بصیرت افروز خیالات کی روشنی میں ترتیب دینی چاہیے حکومت کی جانب دیکھنے کے جو بھی رجحانات ذہنوں میں پرورش پا رہے ہیں ان کے ستون گرا دینے چاہیے،محلّاتی سازشوں کا جال پھیلا اقتدار میں آئیں انہیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بھی اسی طرح کے حربے استعمال کرنا پڑتے ہیں اقتدار کی اسی رسا کشی میں وہ پرسکون حالات جن میں یکسوئی سے کام کرنا ممکن نہیں ہوتا عوام کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کے لیے مذہب کی من پسند تاویلیں گھڑنا پڑتی ہیں اقتدار کی اس جنگ کا ایندھن عوام ہی ہوتے ہیں مگر یہ حکومت تو خود مشکل میں ہے کہ اسے اَپنا وجود قائم رکھنے کے لیے آئی ایم ایف سے امداد طلب کرنا پڑتی ہے یہ عوام کو کیا دے سکتی ہے تحریکِ احتساب کا خاکہ ان حالات میں کیسے پروان چڑھ سکتا ہے؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جس کی تعریف ماضی میں عمران خان خود کیا کرتے تھے عمران خان کی حکومت پاکستان کرپشن میں ماضی کی ہر حکومت کو بھی مات دے چکی ہے دعوی پھر بھی یہی ہے کہ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے، پارٹی فنڈنگ کیس کی اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ ٹسٹ کیس ہے عمران خان کے اے ٹی ایمز اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ اب تحریک انصاف میں ہر سطح پر ہر عہدے دار کے اپنے اپنے اے ٹی ایم ہیں مگر احتساب کا کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ نیب بھی اپنا ہے اورتحقیقاتی ادارے بھی وفاق کے ماتحت ہیں اس حکومت میں مافیاز کی بہتات ہے پیپلز پارٹی مسلم لیگ کی حکومتوں پر بھی مافیا کی سرپرستی کا الزام رہا ہے لیکن حکومت میں ملک کی تمام مافیاز اکٹھے ہوگئے ہیں حکومت میں یہی غیر منتخب طبقہ بااختیار ہے، حکومتی اداروں کی عدم موجودگی میں نجی شعبے کے طاقتور کھلاڑی اپنی منفی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں اور پورا نظام ہی ہائی جیک دکھائی دیتا ہے ہمارے ہاں اصلاحات کے نفاذ کا ریکارڈ اتنا مایوس کن کیوں ہے؟سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کو اسٹیٹ بینک بل ایجنڈے میں شامل ہونے کا پہلے سے علم تھا انہوں نے26 جنوری کو تمام اپوزیشن ارکان کو پیغامات بھجوائے، اپوزیشن لیڈر نے ارکان کو صبح کی بجائے شام ہی کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی، صبح کی فلائیٹس منسوخ ہوسکتی ہیں لہذا رسک نہ لیں اور 28 جنوری کو اجلاس میں شرکت کو یقینی بنائیں اماالدین شوقین کراچی سے جس پرواز پر اسلام آباد آئے طلحہ محمود نے اسی پرواز سے کراچی پہنچے یوں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود ایوان بالا میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہوگیا، حکومت ضمنی مالیاتی بل سمیت عالمی مالیاتی فنڈ کے جائزے کے لیے درکار دونوں بلز منظور کرانے میں کامیاب رہی مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کمال ہے کہ کیا ہے؟ اسٹیٹ بینک کا بِل پیش ہوا۔

(جاری ہے)

قائدِ حزبِ اختلاف یوسف رضا گیلانی غائب۔ ایک ووٹ، یعنی گیلانی صاحب کا ووٹ کم ہونے سے پاکستان کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے کا بل منظور کرلیا گیا اور ان کو قائدِ اختلاف بنانے والے اور اپوزیشن بنچ پہ بیٹھنے والے سینیٹرز کی بل کی والہانا حمایت آج کے بعد گورنر سٹیٹ بینک پکے اور مضبوط، کوئی حکومت انہیں نہیں نکال سکتی ہے اور نہ ہی وہ حکومت کو جوابدہ ہیں، نہ ہی سٹیٹ بینک سے پیسے لے سکتی ہے، نہ بتا سکتی ہے کہ ڈالر کی قیمت کیا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :