آلودہ ترین شہر کے باسی

منگل 16 نومبر 2021

Mian Habib

میاں حبیب

مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ میں دنیا کے آلودہ ترین شہر کا باسی ہوں جہاں سانس لینا بھی دشوار ہو رہا ہے میں روزانہ آلودہ آکسیجن کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں اور اس کی طفیل نہ صرف خود اپنے جسم میں کئی بیماریوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں بلکہ مجھے جان سے پیارے بچے عزیز واقارب دوست احباب اور زندہ دلوں کے شہر کے ایک کروڑ سے زائد باسی آلودہ ماحول میں بیماریوں سے نبرد آزما ہیں کئی سالوں سے لاہور ان دنوں میں ائیر کوالٹی انڈیکس میں آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آرہا ہے اور یہاں کے رہنے والوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے آلودہ ترین شہر میں رہنے کے باوجود فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ لاہور کے باسی ہیں میں کافی دنوں سے اس بات کا تجزیہ کر رہا ہوں میں صبح اٹھ کر اپنی گاڑی کو دیکھتا ہوں تو اس پر باقاعدہ ڈسٹ کی ایک تہہ جمعی ہوتی ہے اسی طرح لان میں پودوں پر بھی تہہ نظر آتی ہے جس سے وہ سبز نظر آنے کی بجائے اور ہی رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں مجھ سے ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تومیں روزانہ پودوں کو پانی سے دھوتا ہوں لیکن روزانہ اتنی ہی ڈسٹ دوبارہ جم جاتی ہے اب گاڑی بغیر دھوئے قابل استعمال نہیں میں سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانے والوں کو دیکھتا ہوں تو وہ اپنے کپڑوں کو صاف رکھنے کے لیے اوپر رف کپڑے پہنتے ہیں منہ لپیٹ کر سفر کرتے ہیں ورنہ منہ قابل شناخت نہیں رہتا میں سوچتا ہوں جتنی ڈسٹ ہمیں نظر آتی ہے اس کا عشر عشیر بھی اگر سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو رہی ہے تو پھیپھڑوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہو گی دوسری جانب اگر دیکھا جائے توفارماسوٹیکل کمپنیوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے شہر میں میڈیکل سٹوروں کی بہتات ہے ہر گلی محلے میں اتنی پرچون کی دوکانیں نہیں جتنے میڈیکل سٹور ہیں میرے ایک دوست بھی میڈیکل سٹور چلاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں کوئی ایسا گھر نہیں جن کے ہاں  دوائی نہ جاتی ہو ذرا لاہور کے ہسپتالوں پر ایک نظر ماریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہسپتالوں میں میلہ لگا ہوا ہے کسی ہسپتال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اب تو پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی رش کا یہ عالم ہے کہ سفارش سے مریض دیکھانا پڑتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ لیبارٹریوں کی بھی خوب افزائش ہو رہی ہے ڈاکٹروں کا بھی کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے موسمیاتی آلودگی اپنی جگہ پر نت نئی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے لیکن ساتھ ہی گندہ پانی پینے سے ہائیپاٹائٹس کینسر اور پیٹ کی بیماریاں پھیل رہی ہیں آلودہ اور ملاوٹ والی غذائیں کھانے سے علیحدہ بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن ہم خوشی خوشی روزانہ اس شہر کے باسی بننے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں پنجاب کے لوگوں کا خواب ہے کہ ان کا لاہور میں گھر ہو وہ اپنے سارے وسائل جمع کر کے لاہور میں رہائش رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ یہ سارا کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں انھیں تعلیم صحت روزگار کی سہولتیں باآسانی میسر ہوں گی کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں قریب آئیں تو کان پھاڑتے ہیں میرا تجزیہ ہے اگر آپ جلد مرنا چاہتے ہیں تو ضرور بڑے شہروں کا رخ کریں لیکن اگر آپ اپنی زندگی کو قانون فطرت کے مطابق گزرانا چاہتے ہیں اور کوالٹی لائف انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو جہاں ہیں وہیں کے ماحول کو بہتر بنائیں اگر تحقیق کی جائے تو جس ماحول میں ہم جی رہے ہیں یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ لاہوریوں کی فی کس عمر کم ہو گئی ہے حکومت کو  چاہیے کہ وہ لاہور پر  آبادی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے چھوٹے شہروں قصبوں میں تعلیم صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ آبادی کے دباو کو بڑے شہروں میں کم کیا جاسکے ایک حد سے زائد آبادی مسائل کا گٹر بن جاتی ہے صوبائی دارالحکومت لاہور جسے کبھی زندہ دلوں باغوں اور تعلیمی اداروں کا شہر کہا جاتا تھا آج کنکریٹ کا ڈھیر بیماریوں کی آماجگاہ اور سوک پرابلم کا گڑھ بنتا جا رہا ہے ایک مختاط اندازے کے مطابق لاہور میں سالانہ ایک سے سوا لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیاں علیحدہ ہیں یہی وجہ ہے لاہور میں ہر قسم کی پلاننگ فیل ہو جاتی ہے کیونکہ جس تناسب سے آبادی اور اس کے لوازمات میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں کسی قسم کی پلاننگ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتی لاہور آبادی کا ایٹم بم بنتا جا رہا ہے لیکن کسی کو ہوش نہیں اب لاہور نکو نک آچکا ہے اب لاہور مینج ایبل نہیں رہا خدارا اس بارے میں سوچا جائے لاہوریوں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیا جائے کھمبیوں کی طرح اگتی ہوئی ہاوسنگ سکیموں کو نکیل ڈالی جائے لاہور کے نزدیک ترین نیا شہر آباد کرکے صوبائی دارالحکومت وہاں شفٹ کیا جائے مزید ہاوسنگ سوسائٹیز پر پابندی لگائی جائے سڑکوں پر ٹریفک کم کرنے کی پلاننگ کی جائے شہر میں درخت لگا کر ماحول کو بہتر بنایا جائے انڈسٹری کو آبادیوں سے باہر منتقل کیا جائے بڑی مارکیٹوں کو گنجان آباد علاقوں سے کھلی جگہوں پر منتقل کیا جائے تاکہ لاہور کے باسی بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :