ہائی مورل گراوٴنڈ

ہفتہ 6 مارچ 2021

Khalid Imran

خالد عمران

بدھ 3 مارچ 2021ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں وہ ہوا جو 1973ء سے 2018ء تک نہیں ہوا تھا۔ اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست حکومتی اتحاد نے ہار دی۔ حکومتی امیدوار وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے سید یوسف رضاگیلانی کی جیت کو بڑا اپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے۔
اپنے امیدوار کی شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا۔

4 مارچ کو قوم سے اور 5 مارچ کو اپنی اتحادی پارٹیوں کے ارکان سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے 16 ارکان نے خود کو بیچا۔ وزیراعظم سمیت تقریباً تمام اہم و غیر اہم وزراء، مشیران، معاونین خصوصی و غیر خصوصی اور پاکستان تحریک انصاف کے راہنماوٴں نے ان 16 ارکان کو ضمیر فروش، لوٹے، بکاوٴ اور نہ جانے کیا کچھ کہا۔

(جاری ہے)

اطلاعات کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 179 ارکان شریک تھے، جبکہ عامر لیاقت، مونس الٰہی، غلام بی بی بھروانا اور باسط بخاری نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

گویا حکومتی اتحاد کے جن ارکان نے سینیٹ کی نشست کے لیے اپنے امیدوار وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی بجائے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہی بکاوٴ، ضمیر فروش اور لوٹوں نے اسی دن اسی وقت تحریک انصاف کی خاتون امیدوار کو بھی ووٹ دے کر کامیاب کرایا۔اور آج 6مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے 178ارکانِ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا ان میں بھی3مارچ کو لوٹے ، بکاوٴ ،ضمیر فروش قرار دیے جانے والے بھی شامل ہیں۔


وزیراعظم سمیت پوری حکومت سیخ پا تھی کہ پی ڈی ایم کے امیدوار کی جیت کے لیے ووٹ خریدے گئے، اس سلسلے میں گیلانی صاحب کے بیٹے حیدر گیلانی کی ایک ویڈیو نے بھی تہلکہ مچایا، علی حیدر گیلانی نے اس ویڈیو سے انکار نہیں کیا۔ وزیراعظم اور دیگر حکومتی ارکان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بھی لتے لیے۔ جواب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں واضح کیا کہ کسی کی خوشنودی کے لیے آئین قانون کو نظرانداز کرسکتے ہیں نہ ہی ترمیم، دباوٴ میں نہیں آئیں گے، ہمیں کام کرنے دیں، کیچڑ نہ اچھالیں، خفیہ بیلٹ کا حسن ساری قوم نے دیکھا، شواہد کے ساتھ بات کریں، جو انتخاب ہار گئے وہ نامنظور جو جیت گئے وہ منظور، یہ کھلا تضاد ہے، شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔


سندھ اسمبلی میں 2 مارچ کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ساتھ جو کچھ ہوا، ان ارکان نے جس طرح کھل کر اپنی پارٹی سے بغاوت کی، اس کا نظارہ بھی دنیا نے دیکھا۔ اسلام آباد کے ارب پتی ٹھیکیدار کو بلوچستان سے سینیٹ کی نشست کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا گیا، جو وہاں کی تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں کے احتجاج پر واپس لے لیا گیا، لیکن 3 مارچ کو وہی ٹھیکیدار آزاد حیثیت سے سینیٹر بننے میں کامیاب ہوگیا۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی نے 3 بڑے کھرب پتی سرمایہ داروں کو ٹکٹ دیے جو اپنی نشستیں جیت گئے۔ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کے ذریعے ن لیگ سے مک مکا کرکے تحریک انصاف نے جہاں اپنے پانچ سینیٹر بنوائے وہیں ق لیگ کے کامل علی آغا کو بھی سینیٹر بنوا لیا۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں کراچی سے میاں شہبازشریف کو ہزار سے بھی کم ووٹوں سے ہرانے والے کھرب پتی فیصل واوڈا کو وفاقی وزیر بنایا گیا۔

کاغذات نامزدگی میں دوہری شہریت نہ ہونے کا جھوٹا بیان حلفی داخل کرنے پر الیکشن کمیشن میں واوڈا پر کیس داخل ہوا۔ وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا ڈھائی برس تک الیکشن کمیشن سے تاریخیں لے لے کر اقتدار سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ واوڈا کی نااہلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی رٹ دائر کی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 3 مارچ کو اس کیس کا فیصلہ سنانا تھا، واوڈا صاحب کی عدالتی نااہلی کے خدشے کے پیش نظر انہیں سندھ سے سینیٹ کا امیدوار بنا دیا گیا۔

3 مارچ کو واوڈا صاحب صبح قومی اسمبلی میں تشریف لے گئے، سینیٹ کی نشست کے لیے انہوں نے ووٹ دیا اور پھر ان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو اپنے موکل کا قومی اسمبلی سے استعفاء پیش کردیا۔ یہ استعفاء اسپیکر قومی اسمبلی کو کب پیش کیا گیا اور انہوں نے کب منظور کیا، اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے اپنے 13 صفحات کے فیصلے میں لکھا کہ ”فیصل واوڈا کو مستعفی ہونے کے باعث نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے نتائج ہیں، فیصل واوڈا کا الیکشن کمیشن میں جمع کرایا گیا بیان حلفی بظاہر جھوٹا ہے، جس پر الیکشن کمیشن فیصلہ کرے۔

“
 وفاقی وزیر برائے آبی وسائل اور سینیٹ انتخابات کے لیے سندھ سے تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واوڈا کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی جس میں وفاقی وزیر کے وکیل نے اسمبلی کی رکنیت کا استعفاء پیش کیا اور موقف اپنایا کہ ان کے موٴکل کے خلاف نااہلی کیس غیر موٴثر ہوچکا ہے۔ وکیل نے کہا کہ فیصل واوڈا نے بطور رکن قومی اسمبلی استعفاء دے دیا ہے، اس لیے یہ پٹیشن غیر موٴثر ہو گئی ہے۔

بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ فیصل واوڈا نے سینیٹ الیکشن کے لیے قومی اسمبلی میں ووٹ کاسٹ کیا ہے، پتا نہیں اس سے پہلے استعفاء دیا یا بعد میں؟بیرسٹر جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی بہت سے ارکان اسمبلی استعفاء دے چکے اور دوبارہ پارلیمان میں آگئے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اسپیکر قومی اسمبلی استعفاء منظور نہ کر لیں تب تک متعلقہ شخص ایوانِ زیریں کا رکن ہی ہوتا ہے۔

میاں فیصل ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیصل واوڈا نے نااہلی سے بچنے کے لیے بطور رکن قومی اسمبلی استعفاء دیا، میڈیا پر بھی مختلف سیاستدانوں کے بیانات آرہے ہیں کہ فیصل واوڈا نے ڈس کوالیفکیشن سے بچنے کے لیے استعفاء دیا ہے۔ اس موقع پر نمایندہ الیکشن کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ای سی پی کے پاس بھی جھوٹے بیان حلفی پر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دینے کا معاملہ زیر التوا ہے۔

فیصل واوڈا کے وکیل نے ایک مرتبہ پھر استدعا کی کہ ان کے موٴکل کے خلاف نااہلی درخواست غیر موٴثر ہونے کی بنا پر نمٹا دی جائے، تاہم جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے 2018ء میں فیصلے میں کہا تھا کہ جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے اپنے نتائج ہوں گے۔ اس کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018ء کا الیکشن شیڈول طلب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن شیڈول جمع کروائیں کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور ان کی اسکروٹنی سمیت الیکشن کی کیا تاریخ تھی؟
3 مارچ کی شام سندھ سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے والوں میں فیصل واوڈا بھی شامل تھے۔

اگست 2018ء میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر 64 ارکان میرحاصل خان بزنجو مرحوم کو ووٹ دینے کے لیے راجا ظفرالحق کے پیچھے کھڑے تھے لیکن خفیہ رائے شماری کے بعد نتیجہ آیا تو میر حاصل بزنجو صادق سنجرانی سے ہار چکے تھے۔ سنجرانی صاحب پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔ اس سے پہلے موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اپنے حصے سے زیادہ ووٹ لے کر پنجاب اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہوگئے تھے۔
ہم نے یہ ساری کہانی سناکر انور چراغ سے پوچھا یہ کیا ہے؟
 تو انور چراغ کا کہنا تھا” کپتان کا ہائی مورل گراوٴنڈ…!“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :