ریاست کے لاڈلے

بدھ 19 مئی 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

اک عجب سی اور غضب کی داستاں سنائی جا رہی  ہے ۔ مریم صفدر عید کے دن گزار کے جاوید لطیف ایم این اے ن لیگ کے گھر شیخو پورہ پہنچی ہیں ۔ ان کے خاندان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے شیر کونواز شریف سے وفا کی سزا دی جا رہی ہے ۔ کیا نواز شریف سے وفا یہ ہے کہ پاکستان نہ کھپے کی بات کی جائےاور پاکستان میں بنگلہ دیش کے قیام کی دھمکیاں دی جائیں۔

وہ کہہ رہی ہیں کہ ان کے ایم این اے نے مٹی کا حق ادا کر دیا ہے ۔ وہ سالوں سے غداری کے یہ سرٹیفکیٹ بٹتے دیکھ رہی ہیں تو سوال ہے کہ کب سے وہ یہ سب سن رہی ہیں ۔ کیا انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب ۔ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو ۔ نجم سیٹھی اور قومی اداروں کے سربراہوں پہ  بھی کسی کو غدار کہتے اور مقدمے بناتے سنا ہے ۔

(جاری ہے)

ان کے پیچھے خرم دستگیر صاحب کھڑے تھے اور وہ بلند آواز میں فاطمہ جناح کو غدار کہنے والوں کو کوس رہی تھیں ۔

شاید وہ تاریخ بھول گئی تھیں کہ گوجرانوالہ میں کتیا کے گلے میں لالٹین ڈال کے کس نے یوں گھمایا تھا کہ محمد علی جناح کی روح بھی کانپ گئی تھی ۔  وہ جنرل مشرف صاحب کے بھیجنے والوں کو غدار کہہ رہی تھیں تو شاید وہ یہ بھی بتا دیتیں کہ اس وقت ملک میں کس کی حکومت تھی ۔وہ غداری کی ایک نئی تعریف کرتے نہ جانے کہاں تک پہنچ گئیں کہ مجھے تو اس ملک کا ہر شہری غدار لگنے لگا ہے ۔

اگر غدار نہیں لگے تو  یہ وہ  تھےجو لندن بیٹھے ہیں ۔ ماضی میں خود اپنے منہ سے حکمران خاندان کا رکن ہونے کی دعوے دار مریم صفدر صاحبہ واقعی اس نظام کی حاکم ہیں ۔ بے شک پاکستان میں تین طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں ۔ نظام کے حاکم ۔ مراعات یافتہ طبقہ اور نظام کے غلام ۔ ریاست کے ان لاڈلوں کے لئے ریاست ہمیشہ آسان راستہ نکالتی رہی ہے اور سنا ہے اب بھی شریف خاندان کو اسی آسانی کی پیشکش ہے ۔

نظام کو غلام رکھنے والے لاڈلے اور نظام کی چکی میں گھن کی طرح پسنے والے عوام آج کی ایک حقیقت ہیں ۔ وہ اس سچائی کو اب خوب جانتے ہیں کہ جس میں دہرے قانون نے مکڑے کا جالا کچھ یوں بنا ہوا ہے کہ کمزور پھنسا بلبلا اور طاقتور اسے پھاڑ کے دندنا رہا ہے ۔ غلام نظام اور نظام کے غلام عوام کے درمیاں مراعات یافتہ حاکم اور ریاست کے لاڈلوں کا محافظ ہے ۔

کہیں کوئی لاڈلے پہ حرف آئے تو یہ یوں چوکس ہو جاتا ہے کہ شاہ سے زیادہ اس کا وفادار بنا سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے اس کے سچ جھوٹ کو سینے پہ ایسے جھیلتا ہے کہ اپنا وجود اور اس وجود میں بسی روح کو ہی بھول جاتا ہے کیونکہ اس کی شان و شوکت شاہ کی ہی مرہون منت ہے ۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی اہمیت تب تک ہے جب تک وہ  ان کے لئے ضروری ہے ۔ جونہی وہ غیر اہم ہوا تو اس کا انجام صولت مرزا کی طرح ہوگا جو جب تک بانی ایم کیو ایم کے لئے سر کاٹتا اور گولیاں چلاتا رہا اہم رہا لیکن جونہی جرائم میں یوں داغدار ہوا کہ اس کے چھینٹے شاہ تک پہنچنے لگے تو کوئی مدد کو نہ پہنچا اور دار پہ کھینچ دیا گیا ۔

اس مراعات یافتہ طبقہ میں شامل وہ سہولت کار ہیں جو سیاست دان بھی ہیں اور اداروں کے محافظ بھی لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ ان کی شمولیت اداروں میں ان کے جرائم کے میرٹ پر کی گئی ہے ۔ جیسے ان میں شاہوں کے وہ بیٹے بھی ہیں جن کو عوام راؤ انوار کے نام سے جانتی ہے ۔ ان میں کوئی مشتاق چینی ہے تو کوئی ایان علی کو بحفاظت دوبئی پہنچا دینے کا سہرہ سجائے ہوئے ہے ۔

شاہ کی ٹکٹ بکتی ہے تو کبھی شاہ کی محبت میں جاگتے ضمیر ہر وہ کام کر گزرتے ہیں کہ جس میں شاہ کو بقا حاصل ہے ۔ بدلے میں ان کی مراعات بھی پھر کچھ ایسی ہیں کہ بجلی کی گنجائش ادائیگی 900 ارب تک پہنچ جاتی ہے چاہے وہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں ۔ غلام عوام کو پہلے صرف ووٹ کے لئے بریانی کھلائی جاتی تھی لیکن اب وہ نوٹ کے پاسباں بھی ہیں جیسے غریب پان ، فالودے ، گولے اور گول گپے والے ۔

  ان کے  بنکوں میں پیسے رکھنے والے کہتے ہیں کہ ایسے میں قصور وار وہی ہیں جن کے نام پہ کھلے بنک اکاونٹس منی لانڈرنگ کی مشین بنے رہے ہیں ۔ آج کے اس نظام کے نظام سقہ نے  آج کے  دور میں مشکیزے کی بجائے انسانی چمڑی کے سکے کاٹے ہیں اور اپنے محل بنائے ہیں ۔ ہر وہ قانون سازی کی ہے کہ فارن کرنسی کس طرح ان ممالک میں پہنچائی جائے جن کے حفاظتی حصار میں کل پناہ لی جائے ۔

ریاست کے ان لاڈلوں نے ریاستی اداروں سے پیسے لے کر انتخابات لڑے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھایا ہے ۔ وزیر اعظم صاحب نے جب عوام سے براہ راست بات چیت میں خود کو اس نظام کے سامنے کچھ لاچار پایا  ، اس میں جان جانے اور اس سے جہاد کرنے کا عندیہ دیا تو میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ریاستی لاڈلے وزیر اعظم صاحب سے بھی زیادہ مضبوط ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو عدلیہ سے لے کر سب کو قانون کے تابع رکھنے کے مجاز ادارے جب ان لاڈلوں کا دم بھرتے ہیں تو مجھے بھی شک پڑنے لگ جاتا ہے کہ ان لاڈلوں کی گرفت یوں تگڑی ہے کہ نظام غلام ہے اور وہ نظام کے بے تاج شہنشاہ ہیں وگرنہ نیب کے سربراہ کا سپریم کورٹ میں لاڈلوں کے خلاف کیس کھولنے سے انکار عدلیہ کی تاریخ کا حصہ نہ بنتا ۔

دوحہ کی فلائٹ کیس دائر کرنے سے پہلے ہی بک نہ ہو جاتی ۔ حدیبیہ کیس جیسے بند ہوا اس کے کردار آج بھی سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ۔ ووٹ کو عزت  دینے کے دعوے دار اور نعرے لگوانے والے ووٹ کی عزت میں  محمدزبیراور شہباز شریف کی صورت گھنٹوں خلائی مخلوق سے ملتے بھی ہیں اور عوام میں پھر انہی پہ برستے بھی ہیں۔ جس عدلیہ نے ان لاڈلوں کو ہمیشہ ریلیف دیا ہے وہ جاوید لطیف کی صورت میں وہی ریلیف نہ دیے جانے پہ قابل تنقید ٹھہرائی گئی ہے ۔

الیکش کمیشن جو ڈسکہ کے انتخابات میں جاگ گیا تھا لیکن کراچی کے انتخابات کے نتائج کے بعد  قابل بھروسہ بھی نہ رہا تھا۔ کراچی میں ڈالے گئے  بیلٹ فوج کے سپرد کرنے کی بات بھی شاید اسی ووٹ کی عزت تھی جس  پہ کبھی سلیکٹرز کا طعنہ تھا۔  مریم صاحبہ کے میاں کی کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پہ ہلہ گلہ کرنے میں ہیرو بنی سندھ پولیس بھی  ووٹوں کے ڈبے سنبھالنے کے لئے  اس دفعہ قابل اعتبار نہ پائی گئی تھی۔

  گلگت بلتستان کے انتخابات کے بعد مریم صفدر کا مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ الیکشن کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا تھا سمجھ سے باہر ہے ۔ مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ جو لاڈلوں کو پسند آئے اس فیصلے پہ تو ریاست اور اس کے ادارے آزاد ہو جاتے ہیں اور جو پسند نہ آئے وہ تھو تھو کے مصداق گردانے جاتے ہیں۔ سارا دن  عوامی خدمت کا بول بالا  کرتے لاڈلے بھی لندن کی بجائے اورنگ زیب عالمگیر کی طرح ٹوپیاں سیتے نظر آتے تو بہتر تھا ۔ میرا تو ریاست سے یہی  سوال ہے کہ اسے اور عوام نے کب تک ان لاڈلوں کا بوجھ اٹھانا ہے اور کب تک ہم عوام کی رہائی متوقع ہے کاش اگر ہماری آواز بھی سن لی جائے ہمیں بھی اعتماد میں لیا جائےتو ہماری عزت افزائی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :