لاش کی غیبی طاقت اور صلاح الدین

اتوار 8 ستمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

ایک شام ملتان میں بہت تیز لال آندھی اور طوفان آیا۔ میں موٹر سائیکل پر حجامت کرانے جارہا تھا، طوفان اتنا شدید تھا کہ میں کافی دیر سڑک کنارے آنکھیں بند کیے کھڑا رہا، مجھے نانی اماں کی آواز کان میں سنائی دینے لگی کہ اس طرح کی آندھی تب آتی ہے کہ جب کہیں کوئی مظلوم قتل ہوتا ہے۔ میں حجام کی دکان پر پہنچا تو پتہ لگا کہ اسے پولیس کسی قتل کے الزام میں دس منٹ پہلے اٹھا کر لے گئی ہے، خیر یہ بات آئی گئی ہوگئی۔

میں نے کچھ دن بعداس کا پتہ کیا وہ تاحال شاملِ تفتیش تھا۔ ایک ماہ بعد میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے اس لال آندھی کی اصل حقیقت بتائی۔ وہ اب بھی سہما ہوا تھا۔ اس نے اپنی دکان سے ایک غریب لڑکے کو چند دن پہلے تلخ کلامی پر نکالا تھا،وہ ملتان کے علاقے گلگشت میں کہیں اور کام پر لگ گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس بات کو دو ماہ ہوئے تھے،اس لڑائی کے دوران اس نے لڑکے کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی اور وہ لڑکا بہت شدید تشدد کے بعد قتل ہوگیا تھا،اس کی لاش ملتان کی ایک رہائشی کالونی کے خالی پلاٹ سے جلی ہوئی ملی تھی،سر تن سے جدا تھا اور جسم پر شدید تشدد کے نشان تھے۔

یہ قتل معمہ بن گیا تھا۔ حجام نے پولیس کا ٹارچر سیل دیکھا،وہ شاید اگلا صلاح الدین ہوتا، مگر ایک رات وہ جیل میں سجدے میں گرگیا اور اس نے رب سے اپنی کسی نیکی کا صلہ مانگا،وہ نیکی کیا تھی ،میں جانتا تھا۔ اگلے روز صبح تھانے،ملتان کی اسی کالونی کہ جس کے خالی پلاٹ سے لڑکے کی لاش ملی تھی،وہاں سے ایک خاتون آئیں۔ خاتون نے بتایا کہ وہ روزانہ رات تہجد کے نوافل ادا کرتی ہیں۔

اس رات ان کو دورانِ نماز شدید بو آنی شروع ہوگئی،جیسے کوئی کچا گوشت پکا یا جارہا ہوں۔ انہوں نے پریشانی میں گھر کے باہر دیکھا تو گھر کے عقبی جانب ان کو دھواں اٹھتا محسوس ہوا ،وہ اپنے بیٹے کو اٹھا کر گھر کی چھت پر گئیں تو انہوں نے ایک وین میں تین لڑکوں کو کسی چیز کو جلاتے دیکھا ،انہوں نے اسے اچھی طرح جلا کر،وہیں گڑھا کھودا اور اس کو دفن کر دیا ۔

یہ واقعہ ویران ترین علاقے میں رات تین چار بجے کے قریب پیش آیا،کوئی کیسے سوچ سکتا تھا کہ یہ لڑکے اس ٹائم جو مکروح عمل کررہے تھے وہ اللہ کسی کو دکھا رہا تھا۔ یہ دونوں ماں بیٹا ڈر کر خاموش ہوگئے۔ لاش کسی طور نہیں مل سکتی تھی، مگر اس لاش کو جانور زمین سے باہر کھینچ لائے اور کسی شہری کی نشاندہی پر یہ سر کٹی لاش مل گئی۔ اس عورت کا بیٹا ،جس حجام کے پاس حجامت کے لیے جاتا تھا،اس نے اس دکان میں ایک لڑکے کو اس رات لڑکوں کے ساتھ پہچان لیا۔

عورت کہتی میں تب سے آج تک جب تہجد پڑھنے لگتی ،مجھے گوشت کی سڑان کی بو اس قدر شدید آتی کہ میری روح کانپ جاتی۔ مجھے روز رات وہاں سے دھواں اٹھتے دکھائی دیتا ہے۔نجانے کونسی طاقت اس کو مجبور کررہی تھی،وہ عورت بیٹے کو لے کر آگئی ،ان کی نشاندہی پر قاتل پکڑے گئے،جنہوں نے رنجش میں اس لڑکے کو پہلے شراب کے نشے میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور بعد میں یہ واردات کی تھی۔

میں اپنے حجام کی بات سن کر حیران تھا کہ لاش کیسے اپنے قاتل کا پتہ خود دے دیتی ہے؟ کچھ ہے جو غیب سے کام کرتا ہے۔میرا وہی حجام آج ملتا ن کے سب سے بڑے سیلون کا مالک ہے،وہ روازنہ صبح دوکان میں تلاوت کراتا ہے اور شہر کے ہر مدرسے کے بچے کے بال وہاں مفت کاٹے جاتے ہیں،اس کی یہی نیکی اس رات بھی اس کے کام آئی تھی۔ اس کا اس نیکی پر روزی کا اڈا کے نام سے 24 جون 2016ء کو کالم گونج بھی تحریر کر چکا ہوں۔

یہ قتل سات سال پرانی بات ہے،اب دور سوشل میڈیا کا ہے۔ مگر لاش کی غیبی طاقت کیسے کام کرتی ہے،اس نے سات سال بعد بھی مجھے حیران کردیا۔ صلاح الدین بظاہر ایک ذہنی معذور شخص تھا، اے ٹی ایم سے کارڈ نکالتے اس نے مشین کو منہ چڑایا اور یہ وڈیو آج کل کے سوشل میڈیا دور میں وائرل ہوگئی۔ یہ سب ایک مذاق کے طور پر لیا جاتا رہا ،مگر درحقیقت لاش کی غیبی طاقت نے اپنا کام پہلے ہی شروع کردیا تھا۔

نئے پاکستا ن اور ریاست ِ مدینہ کی وہی پرانے پاکستان والی پولیس نے بھی صلاح الدین کو تماشہ بنالیا۔وہ اس کی وڈیوز بناتے رہے،اس کو مارا جاتا رہا، ہم سب اس کو مذاق سمجھتے رہے۔اس کے قتل سے ایک روز پہلے ایک وڈیو وائرل ہوئی،جو شاید کرنے والے بھی خود اس کے قاتل تھے، جس میں وہ پولیس سے عاجزی سے کہتا ہے؟ ایک سوال پچھاں ؟ مارو گے تو نہیں؟ تسی اینج مارنا کتھوں سکھیا؟ ۔

اسی رات اس کو تھرڈ ڈگری سے بھی زیادہ بدتر ٹارچر دیا گیا۔ صلاح الدین مر گیا تو لاش ہسپتال لائی گئی۔ یہ پہلے ہی سوشل میڈیا پر اپنی اے ٹی ایم کے کیمرے کو منہ چڑھانے والی وڈیو کی وجہ سے وائرل تھا،اس کی موت کی خبر بھی آگ بن کر پھیل گئی۔پھر صلاح الدین کے والد کی اس کی لاش لینے تک سے لاش کے آخری غسل تک ہرچیز سوشل میڈیا کی زینت تھی۔ صلاح الدین کے پورے جسم پر بدترین تشدد کے نشانات تھے۔

اس کے بازؤں کو نیچے سے جلایا گیا تھا،اس کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نکالے گئے تھے،اس کی کمر ،ٹانگوں پر بدترین تشدد تھا۔ یہ تصاویر پوری دنیا نے دیکھیں اور اس نے پولیس گردی کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اس نے کشمیری مسلمانوں پر بھارتی فوج کے ظلم کی یاد بھی تازہ کرادی کہ ایک طرف تو ہم ان پر کیے ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں تو دوسری طرف اس ملک کے آزاد شہریوں پر پولیس بھارتی فوج کا روپ دھارے کیا مظالم ڈھا رہی ہے۔

اس نے سانحہ ساہیوال سمیت ہر واقعے کو تازہ کردیا،ان پر ہونے والے انصاف کا چہرہ بھی دکھا دیا۔ ساتھ ہی چیف جسٹس کا شاہ رخ جتوئی کے ڈیتھ سیل کا دورہ کہ جہاں اسے ہر طرح کی عیاشی میسر تھی، ایان علی کی ماڈلنگ کرتی پیشیاں اور بڑے بڑے چوروں کے ہنستے چہرے اور وکٹریوں کے نشان بھی اس بے انصاف معاشرے کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے نقش کردیے۔ صلاح الدین کا بازو جہاں سے جلایا گیا،اس پر اس کا پتہ درج تھا،وہ پتہ کاش کسی شامل ِ تفتیش محل کا ہوتا تو اس کے ساتھ یہ نہ ہوتا۔

قارئین کے لیے شاید یہ سب اتفاق یا افسانہ ہوگا، مگر جس رات صلاح الدین قتل ہوا،اس رات راقم القلم امتحان کی تیاری کے لیے رات جاگ رہا تھا، رات کے تین بج رہے تھے اور باہر شدید طوفان تھا۔ شاید یہ طوفان سات سال پہلے ملتان کے اس طوفان کی طرح لال تھا، مگر رات کی تاریکی میں میں اس کا اندازہ نہ کرپایا، مگر جس طرح صلاح الدین کی لاش نے اپنی زندگی میں ہی اپنے قاتلوں کا پتہ دینا شروع کیا،اس پر لاش کی غیبی طاقت نے جدید ترین دور میں بھی اپنا غیبی اثر دکھایا۔

میں دو سال پہلے اس حجام کے ساتھ اس عورت سے ملا تھا، وہ عورت اس لڑکے کے قاتلوں کو پکڑوا کر سکون میں تھی۔اب اسے ہر تہجد میں کچے گوشت کی سڑان کی بجائے ایک عجب خوشبو آیا کرتی تھی۔ صلاح الدین کے قتل میں جو بھی ملوث تھے،ان کو ریاست ِ مدینہ کے اربابِ اختیار کو قرار واقعی سزا دلوانا ہوگی۔ نجانے ایک صلاح الدین جو اس نظام کو منہ چڑا کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا،وہ کتنے معصوموں کو مزید بدترین بربریت سے بچالے،وہ جو شاید روزانہ ایسے تھرڈ ڈگری ٹارچر سیلز میں ڈھائی جاتی ہے۔

اگر ایسا نہ ہوا تو صلا ح الدین جس نظام کو منہ چڑا کر گیا،یہ عین ممکن ہے کہ اس کے چلانے والوں کو ایک مظلوم کے جلتے تشدد زدہ گوشت کی سڑان انصاف تک سکون کی نیند نہ سونے دے ۔آخر میں نئے پاکستان کی نظر بھی وہی پرانا شعر،
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :