کیا یہ سب ھو گا ‎

ہفتہ 7 دسمبر 2019

Danish Raees

دانش رئیس

دور جدید میں جب بھی کبھی ترقی کا ذکر کیا جاتا ہے تو فوراً آمریکہ اور مغربی ممالک کے نام ذھن میں گونجنے لگتے ہیں۔شاید ایسا کہنا غلط بھی نہیں ھو گا کہ وہ خطہ ترقی کی دوڑ میں ھم سے کئی شعبوں میں آ گے ھے۔۔۔انسان کبھی کبھی سوچتا ہے کہ جب خدا نے انسان کو ایک ہی سانچے سے تخلیق کیا ہے تو کیسے انسانوں کا ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پر سبقت حاصل کر لیتا ہے۔

۔خیر یہ ایک لمبی بحث ھے،، پھر کبھی سہی۔۔۔۔میں آج اپکو یورپ کے ایک ملک کے تعلیمی نظام سے متعارف کرواتا ہوں جسے جان کر آگر حیرانی نہ بھی ھوئی تو کم از کم یہ سوچنے پر ضرور مجبور ھو جاینگے کے کہ تعلیم ہی وہ فرق ہے جو ترقی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔۔۔فن لینڈ کہنے کو تو یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جو رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان سے تین گنا چھوٹا ہے لیکن صرف رقبہ کے لحاظ سے ہی چھوٹا ہے جبکہ اس کا تعلیمی نظام دنیا کے چند بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)

فن لینڈ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ سات سال تک اسکول، امتحان اور کسی بھی ذہنی دباؤ سے آزاد ھوتا ھے۔ وہاں سات سال سے پہلے کسی بھی بچے کو اسکول میں داخل نہیں کروایا جاتا، زندگی کے سات سال گزارنے کے بعد جب بچہ اسکول میں قدم رکھتا ہے تو پھر اگلے چھ سال نہ کوئی امتحان اور نہ ہی فیل ہونے کا خوف، تیرہ سال کی عمر سے پہلے کیسی بھی قسم کا امتحان لینے کا رواج ہی نہیں۔

۔۔زندگی کے وہ تیرہ سال جب انسان اپنی عادتوں کے اعتبار سے پختگی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے تو اس دوران جن خصوصیات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے وہ ھے کردار سازی، حوصلاافزائی، سچ بولنے کی عادت اور سوچنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی مشقیں۔۔۔پنتالیس منٹ کی کلاس کے بعد ایک تفریحی پروگرام کے تحت ان سب مراحل سے گزارا جاتا ہے جہاں بچے خوداعتمادی، ایک دوسرے کی مدد اور نظم و ضبط جیسی عادتوں میں مزید پختگی اپنا تے ہیں۔

فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی بات یہیں ختم نہیں ہوتی جہاں اس نظام کا ایک پہلو بہترین اور ذمہ دار شہری بنانا ہے وہیں دوسرا پہلو اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیےاعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی فراہم کرنا ہے۔ فن لینڈ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے لئے لازمی ہے کہ ایک پانچ سالہ ٹیچنگ پروگرام مکمل کیا جائے، وہاں کے پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ جتنا قابل پڑھانے والا ہوگا وہ اتنے ہی بہترین طریقے سے اگلی نسل کی رہنمائی کرسکتا ہے۔

۔۔۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ مومن اپنے عصر میں زندہ رہتا ہے، عصر سے مراد اپنے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رھتا ھے۔۔۔۔۔میں جب پاکستان کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ذرا بھی مشکل درپیش نہیں آتی کہ کیوں پاکستان کا شمار آج بھی ترقی پذیر ممالک میں ھوتا ھے۔ ایک ایسا ملک جہاں خود کئی طبقاتی نظام تعلیم رائج ہوں وہ کیسے ایک قومی سوچ کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

۔۔ اس موجودہ نظام کا سب سے بڑا مسلا یہ ہے کہ یہاں ذہانت کا معیار آچھے نمبر، کاغذ کی ڈگریوں اور انگریزی زبان پر عبور سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ ہمارے بچے اپنے وزن سے بھی زیادہ توقعات کا وہ بوجھ اٹھانے پر مجبور ھو جاتے ھیں جہاں وہ بنا سوج بوجھ کے اپنی ساری کی ساری صلاحیتیں ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کی طرح صرف اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر مرکوز کر دیتے ہیں۔

۔ ہمارا یہ فرسودہ نظام ذہنوں کو پنپنے ہی نہیں دیتا۔۔۔کیا ھم نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان کا سٹیو جاب کون ہوگا؟ ، کیا پاکستان میں کبھی آ ین اسٹیاین پیدا نہیں ھوگا؟؟؟ سائنس کے میدان میں کیا ھم عبدالسلام کے نوبل پرائز کو ہی یاد کرتے رہے گے، کیا یہاں بھی کوئی ایسا دماغ پیدا ہوگا جو دنیا کی معیشت کا رخ موڑ پائے؟؟ کیا ھم ساری زندگی ایسے ہی مغرب کی ترقی کی مثالیں دیتے رھینگے؟؟اس نظام کو بدلا جا سکتا ہے اس پورے نظام کی مرمت ممکن ہے، فقط ضرورت ہے تو ایک بہترین نصاب کی جو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔۔۔کیا یہ سب ھو گا ؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :