گالی اور گولی

جمعہ 23 جولائی 2021

Ammar Masood

عمار مسعود

جس طرح گالی دینا کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے اس طرح مسلسل گالیاں کھانا بھی کوئی لائق تحسین بات نہیں ۔ اس بات کو اب مسلم لیگ ن کے کارکنوں ، قیادت اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے سمجھ لیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے واقعات صرف چند دن پہلے کے واقعات نہیں بلکہ  انکے ڈانڈے دور تک ملتے ہیں۔ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج کا نہیں ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کو گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا۔

ایک جرم جو انہوں نے کیا ہی نہیں اسکی سزا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر سر عام دی گئی۔ ہر ظلم کا بہر حال خاتمہ ہوتا ہے، ہر زہریلی سازش کے خلاف کوئی تدبیر نکل آتی ہے۔ ہر خاموشی کبھی طوفان بن جاتی ہے۔ یہی اب ہو رہا ہے۔
وہ کارکن جو گذشتہ پانچ برسوں سے کرپٹ ، ڈاکو ، چور اور لٹیرے کے القابات سن کر شرمسار ہوتے تھے اب انہیں طیش آتا ہے۔

(جاری ہے)

اب وہ گالی کے جواب میں گالی نکالنے کا ہنر جان گئے ہیں۔ اب وہ بہتان طرازی کا دندان شکن جواب دینے میں ماہر ہو گئے ہیں۔
 مسلم لیگ کی قیادت پر مسلسل الزام لگانے والوں کو ایسا سبق پڑھایا گیا ہے کہ وہ کسی دلیل سے ماورا ہو گئے ہیں۔ نہ حقائق ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ دستاویزی ثبوت سے انکی تشفی ہوتی ہے۔ وہ بس یہی آموختہ دھراتے رہتے ہیں کہ کچھ لوگ لوٹ کر لے گئے اس ملک کو ۔

کچھ لوگوں کی کرپشن نے اس ملک کو تباہ کر دیا۔ یہ بات ان کے ذہنوں میں اتنی راسخ ہو گئی ہے کہ وہ اسی کو سیاست سمجھتے ہیں ، یہی انکے نزدیک دلیری ہے یہی انکے نزدیک جرات ہے۔
اب کوئی کس طرح اس نسل کو سمجھائے کہ نواز شریف اور انکے رفقاء پر کرپشن کی ایک پائی کا ثبوت نہیں ملا۔ وزیر اعظم ہاوس کا خرچ نواز شریف اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ شہباز شریف نے کسی معاہدے میں کوئی کرپشن نہیں کی اس کے باوجود پنجاب کو ترقی کی بلندی پر پہنچا دیا۔

مریم نواز کا میڈیا سیل وزیر اعظم ہاوس کے خرچ سے نہیں چلتا تھا۔ اس کو چند رضاکار چلاتے تھے۔ شاہد خاقان عباسی اپنی گاڑی خود چلا کر  بطور وزیر اعظم دفتر جاتے تھے۔ سعد رفیق نے ریلوے کو زمین سے آسمان تک پہنچ دیا تھا۔ خواجہ آصف ایک بہترین وزیر خارجہ تھے جو امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے تھے۔ اسحاق ڈار نے اس گرتی پڑتی معیشت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔

رانا ثنا االلہ نے کبھی تھانوں کو غیر قانونی کام کرنے کو نہیں کہا تھا۔ احسن اقبال ترقی پاکستان کے لیئے  اگلے پچیس سال کی پلاننگ کر رہے تھے۔ انوشے رحمان کے دور میں آئی ٹی کی وزارت میں کبھی کوئی اوپر سے فون نہیں آیا تھا۔ اسی دور میں پاکستان کو لوڈ شیڈنگ جیسی عفریت سے نجات ملی تھی ، دہشت گردی کا عذاب ختم ہوا تھا۔ بلوچستان میں امن قائم ہو ا تھا۔

علیحدگی پسند تحریکیں پاکستان کو جھںڈا لہرا رہی تھیں ۔ لیکن یہ سب باتیں اس نسل پر ذرا بھی اثر نہیں کرتی جسے چور ڈاکو کی گردان  رٹوا دی گئی ہے۔
اس کا سبب وہ پانچ سال ہیں جس میں ہر موقع پر مسلم لیگ ن پر الزامات لگائے گئے۔ سوشل میڈیا پر غلیظ ٹرینڈ بنوائے گئے ۔ الیکٹرانک میڈیا پر زرخرید اینکروں اور بے ضمیر تجزیہ کاروں کے ذریعے زہر اگلا گیا۔

عمران خان کے ہر جلسے میں یہی گردان دہرائی گئی، ہر وزیر کو اسی بہتان طرازی کا ٹاسک ملا۔ ہر ٹاک شو میں یہی بات دہرائی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جھوٹ اس تسلسل سے بولا گیا کہ اب بہت سے لوگ اسی کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ یہی ان کو تاریخ پاکستان لگنے لگی ہے ۔ بات صرف یہ بتانی ہے کہ یہ تاریخ پاکستان نہیں مطالعہ پاکستان کو وہ نصاب ہے جو ہر دور میں سیاستدانوں کے خلاف مروج  رہا۔

یہ سبق ہمیشہ  عوام کو پڑھایا گیا۔ سیاسی کارکن کے جذبے کو ہمیشہ شرمسار کیا گیا ۔ ساسی قیادتوں کو ہمیشہ بدنام کیا گیا۔ ہمیشہ ایسے بے بنیاد الزامات لگا کر خفیہ ہاتھوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
جو کچھ لندن کے ایک ریسٹورانٹ میں نواز شریف فیملی کے ساتھ ہوا اور جس طرح عابد شیر علی کا رد عمل سامنے آیا ، جو کچھ خرم گنڈا پور کے ساتھ کشمیر میں ہوا اور جس طرح انکا ردعمل سامنے آیا ۔

یہ اب احتجاج کی ایک نئی قسم ہے جس سے پہلے ملسم لیگ ن کا کارکن واقف نہیں تھا۔ پہلے یہی کارکن ان الزامات پر چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا ۔ شرافت کے مارے گالی کا جواب گالی سے اور گولی کا جواب گولی سے نہیں دیتا تھا۔ اب صورت حال بد ل گئی ہے۔ اب کارکن ان الزامات پر مشتعل ہوتے ہیں ۔ رد عمل دکھاتے ہیں ۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ گالی کا جواب گالی سے دیتے ہیں ۔


میرے اندازے کے مطابق انے والے دنوں میں  تصادم کی اس صورت حال میں مزید  اضافہ ہو گا۔ اس لیئے کہ  بنیادی طور پر گولی اور گالی فرسٹریشن کی علامت ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے نوازشریف اور انکے رفقاء کی بارے میں یہ قبیح منصوبہ بنایا تھا اب انکی فرسٹریشن عروج پر ہے۔ گالی برگیڈ تخلیق کرنے والے یہ سمجھتے تھے کہ مسلسل بہتان طرازی سے یہ جماعت ٹوٹ جائے گی، کارکن بدل ہو جائیں گے، قریبی ساتھی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ جماعت ٹوٹی ، نہ کارکنوں کا حوصلہ ۔ سب زہریلے منصوبے غارت ہوگئے۔ اب بھی لوگ نواز شریف کے بیانیئے کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب بھی مریم نواز کے جلسوں میں لوگ ایک اشارے پر ہم آواز ہوتے ہیں۔ اب بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی اگر ترقی ہوئی ہے تو نواز شریف کے دور میں ہوئی ہے۔ یہ صورت حال تو منصوبہ سازوں نے سوچی نہیں تھی۔


اصل مسئلہ نہ گالی کا ہے نہ گولی کا ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام نفرت کی اس سیاست کے اصل تخلیق کاروں کو پہچان گئے ہیں۔ گالی برگیڈ کے موجدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ اب ایک طرف سے کرپشن کا نعرہ لگتا تو دوسری طرف سے بھی عاصم باجوہ کی طرف "رسیداں کڈو " کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ اب مودی کے یار کا نعرہ لگتا ہے تو مودی کو "مس کالیں " مارنے والے وزریر اعظم کا نام لبوں پر آجاتا ہے۔
جھوٹ کے بیوپاریوں کو ایک بات سمجھ لینی چاہیئے کہ لوگوں کو ایک حد تک دیوار سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس حد کو پار کریں گے تو آپ کی پارسائی پر بھی چھینٹے پڑیں گے اور آپ کے عزت اور وقار کے جھوٹ لبادے بھی  دغدار ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :