محسن پاکستان کی رخصتی

پیر 11 اکتوبر 2021

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

اتوار کے دن پاکستان میں عمومی طور پر لوگ لیٹ اٹھتے ہیں  اور  فیملی کے ساتھ  مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن آج 10 ،اکتوبر 2021 کا دن ایک عظیم سانحے کی خبر سے  شروع ہوا۔ تقریباٍدس بجے سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبر ملک بھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی تھی۔تمام سوشل میڈیا  بشمول واٹس ایپ ، ٹویٹر، فیس بک ، اور نیوز چینل پر یہی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔

کہ محسن پاکستان ڈاکٹر  عبدالقدیر خان انتقال کر گئے ہیں۔وہ ایک عظیم مسلمان، سائنسدان اور محب وطن پاکستانی تھے۔ ہمارے سکول کے دنوں کے وقت سے ہی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ان کی خدمات زبان زد عام تھیں۔اور اسلامی بم بنانے اور ہالینڈ سے ایس ایم ظفر بطور وکیل ان کا مقدمہ جیتنے کی خبریں عام تھیں،اس کاذکر  ایس ایم ظفر کی کتاب "میرے مشہور مقدمے " میں تفصیل سے ملتا ہے۔

(جاری ہے)

اپریل 2018 میں لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ایک تقریب میں  اس عظیم شخصیت سے ملنے کا موقع ملا۔جسے میں ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔ بعد میں ان سے موبائل کے پیغامات کے ذریعے رابطہ بحال رہا۔جو شخص بھی ان سے ملتا ،ان کی  شخصیت کا گرویدہ ہو جاتا۔ اس تقریب میں بھی وہ شمع محفل بنے ہوئے تھے۔ دوسرے طالب علموں کی طرح سکول اور کالج کے زمانے سے ہی میں اپنے مضامین میں  ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کا ذکر کرتا ہوں ۔

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے اور 1998 میں ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کلیدی کردار ہے۔ جس کے لئے انہیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی  اور بے شمار پابندیوں اور حزیمت کا سامنہ کرنا پڑا۔لیکن انہوں نے اپنے عظیم مشن  کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔وہ جانتے  تھے کہ پاکستان کا مقابلہ بھارت اور اسرائیل جیسے طاقتور اور مکار ملکوں سے ہے،جن کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو نا قابل تسخیر بنانا ضروری تھا جس کے لئے کثیر سرمایہ اور اعلی سائنسی مہارت کی ضرورت تھی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان  اور ان کی ٹیم نے اپنی شب وروز محنت کے سبب یہ کامیابی حاصل کر لی۔ اور پاکستان کو دنیا کے سات ایٹمی ملکوں کی فہرست میں لا کر کھڑا دیا۔ جس پر ہر مسلمان اور پاکستانی اپنا سر فخر سے بلند کر سکتا ہے۔انہوں نے کئی کتابیں بھی تحریر کیں اور روزنامہ جنگ میں سحر ہونے تک کے نام سے  ہر سوموار ایک اردو            کا لم لکھا کرتے تھے۔

رسول اکرمﷺ ، مولانا روم  اور شیخ سعدی ان کی پسندیدہ شخصیات تھیں۔ وہ اکثر اپنے کالمز میں شیخ سعدی کی حکایات کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ اور گلستان اور بوستان کا ریفرنس دینا ان  کے مضامین کا خاصہ تھا۔وہ کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور پوری پاکستانی قوم ان کی صحت کے لئے دعا گو تھی۔ان کے حوالے سے دعائے صحت کی اپیل بھی سوشل میڈیا پر آئی تھی۔جس میں یہ لکھا تھا کہ ہم سب کو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے اور ایک دن ہم سب نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔

اور خالق حقیقی کے سامنے اپنے اعمال کے  لئے جوابدہ ہونا ہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ میں نے دل وجان سے ، خون اور پسینہ سے ملک و قوم کی خدمت کی ہےجو کہا گیا اس پر عمل کیا ،کوئی غلط کام نہیں کیا اور نہ ہی میرے محب وطن ساتھیوں نے کوئی غلط کام کیا۔میرا اللہ میرا گواہ ہے۔میں جہاں چلا جاتا کھرب پتی ہو جاتا، مجھے پاکستان اور پاکستانی عزیزتھے، آپ کی سلامتی اور حفاظت میرا فرض تھا۔

آپ لوگوں نے مجھے "محسن پاکستان اور "محافظ پاکستان " کے القاب سے نوازاجس کے لئے تہہ دل سے مشکور ہوں ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے دوستوں اور محسنوں کو نہیں بھولتے تھے۔وہ اپنے کالمز میں مصنفین کی جانب سے بھیجی جانے والی کتب پر تفصیل سے تبصرہ کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ  ڈاکٹر صفدر محمود خوش قسمت ہیں کہ انہیں بین الاقوامی اداروں اور غیرملکی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے خزینۂ معلومات سے پاکستان کی بہت اچھی مثبت تصویر پیش کی۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ایک اور جگہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں کہ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ کم از کم 75فیصد لوگ سخت پریشان ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان کے فقدان نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ لوگوں کے پاس نہ رقم ہے، نہ بجلی، نہ پانی۔ ایک اور خراب بات یہ ہے کہ ہم اپنے کلچر و ثقافت کو تباہ کررہے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت میں بیان فرمایا ہے کہ خاموشی بہت سی بھلائیوں کی جڑ ہے اور داناؤں کا قول ہے کہ کم سونا، کم کھانا اور کم بولنا بہت سی برائیوں کو روکتا ہے۔

وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش نصیب لوگوں کو ہی ملتے ہیں، ورنہ وقت پر سمجھ نہیں آتی اور سمجھ آنے پر وقت نہیں ہوتا۔ جب بونوں کے سائے بڑے ہونے لگیں تو سمجھ لو کہ سورج غروب ہونے والا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ عالم الغیب ہے جو کچھ ہمارے مقدر میں لکھا ہے ، آپ اسے تبدیل نہیں کرسکتے۔ صرف ماں کی دعا قبول ہو کر تبدیلی کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آخری کالم پچھلے ہفتے 4،اکتوبر 2021 کو روزنامہ جنگ میں چھپا تھا۔جس میں انہوں نے اپنی حالیہ بیماری ، ڈاکٹروں کی نگہداشت اور صحت یابی کا ذکر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ  آپ نے اکثر کافروں اور کمزور ایمان والوں کو اﷲپاک سے شکایات کرتے سنا ہوگا کہ ا ﷲ پاک ان کی فریاد ، التجا نہیں سنتا۔ یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

سورہ یوسف میں حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں سے حضرت یوسف ؑ کی تلاش کے لئے کہا تھا اور فرمایا تھا کہ اللہ کی ذات سے صرف کافر ہی نااُمید ہوتے ہیں۔ بیماری کی خبر عوام تک پہنچ گئی مگر ایوانوں تک آج تک نہیں پہنچی۔ پورے ملک میں کروڑوں لوگوں نے میری صحتیابی کی دعا کی۔ کئی مرتبہ اگرچہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میرا وقت پورا ہوگیا ہے۔ میں نے مگراللہ پاک سے دعا مانگی کہ مجھے تھوڑی سی مہلت دیدے کہ گنہگار ہوں، خطاکار ہوں کچھ توبہ استغفار کا وقت مل جائے اور چند فلاحی کاموں کی تکمیل بھی کرسکوں۔

آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ میری تمام دکانداروں، دفتر والوں سے درخواست ہے کہ ریڈیو چینل  ایف ایم پر صوت القرآن کے نام سے پروگرام نشر ہوتا ہے، قرآن کی تلاوت بمعہ ترجمہ نشر کی جاتی ہے، براہ مہربانی ہلکی آواز میں اس کو آن کردیا کریں خود بھی سنیں اور دوسرے لوگ بھی سنیں گے اور ہدایت یاب ہوں گے۔ آپ بار بار سن کر اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے کے علاوہ بُری باتوں سے پرہیز کرنے لگیں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو نیک ہدایت دے اور صحیح راستے کی رہنمائی فرمائے۔ آمین۔ پاکستان زندہ باد۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :