نفاس
نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو کامل الخلقت یا ناقص لخلقت بچے کی ولادت کے بعد عورت کے عضو مخصوصہ سے نکلتا ہے،
نفاس کا دورانیہ
[ترمیم]یہ خون زیادہ سے زیادہ چالیس دن نکلتا ہے اور کم از کم کی کوئی حد نہیں، ایک دن بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی۔ اگر چالیس دن سے زیادہ ہو تو چالیس دن تو نفاس ہے اس کے بعد استحاضہ، نفاس کے دوران نماز روزہ رکھنا منع ہے۔ نفاس وہ خون ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد رحم سے آگے کی راہ سے نکلے جب نصف سے زیادہ بچہ باہر نکل آئے تو اب جو خون نکلے گا وہ نفاس ہو گا، اس سے پہلے نفاس نہیں ہو گا اگر توام ( جوڑا) بچے پیدا ہوں تو نفاس پہلے بچے کے پیدا ہونے کے وقت سے ہو گا اور اس کی پیدائش کے بعد سے چالیس دن تک نفاس ہو گا اس کے بعد استحاضہ ہے مگر غسل کا حکم دیا جائے گا یعنی نہا کر نماز پڑھے گی شرط یہ ہے کہ دونوں توام بچوں کی ولادت میں چھ مہینہ سے کم کا فاصلہ ہو اگر دونوں کے درمیان چھ مہینہ یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو دو حمل اور دو نفاس ہوں گے نفاس کی کم سے کم مدت کچھ مقرر نہیں، نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد خون آ جائے خواہ ایک ہی ساعت ہو وہ نفاس ہے اگر بچہ نصف سے کم نکلا اور اس وقت خون آیا تو وہ نفاس نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے، اگر خون چالیس دن سے زیادہ آتا رہا تو اس عورت کے لیے جس کو پہلی مرتبہ نفاس آیا چالیس دن نفاس ہو گا اور باقی استحاضہ اور جس عورت کی نفاس کی عادت مقرر ہے اس کے لیے مقررہ عادت کے دنوں تک نفاس ہے اور باقی استحاضہ، نفاس کی عادت کے ایک بار خلاف ہونے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ زبدۃ الفقہ زوار حسین شاہ زوار اکیڈمی کراچی