Live Updates

میزبان سیاحت کا فروغ، کے پی کے دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک پرجوش منصوبہ

منگل 7 جنوری 2025 17:43

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 جنوری2025ء) ورلڈ اکنامک فارم کی جاری کردہ ٹریول اینڈ ٹورازم رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آمدن میں یہ سیکٹر 930.9 بلین روپے انکم دے چکا ہے جو کہ 2028 تک 1.73 ٹریلین تک بڑھنے کا امکان ہے۔ اسی طرح اگر روزگارکے حوالے سے دیکھا جائے تو 2017 میں یہ سیکٹر بلواسطہ اور بلاواسطہ 3,894,000لوگوں کو روزگار فراہم کر چکا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ 2028 تک 5,017,000لوگ اس انڈسٹری سے روزگار کما رہے ہوں گے۔

سیاحتی شعبہ نا صرف پاکستان میں روزگار فرہم کر رہا ہے بلکہ آمدنی کا بھی ذریعہ ہے۔پاکستانی سیاحت دنیا کی نظر میں اس لیے بھی مقبولِ ہو رہی ہے کیونکہ یہاں پر مختلف اقسام کی ثقافتیں اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ چاہے وہ لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد ہو یا ہُنزہ کی خوبصورت وادیاں، چاہے وہ صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا دودریا کا سیاحتی مقام ہویا بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ، چاہے وہ موہن جودڑو کے قدیم کھنڈرات ہوں یا بلندوبالا پہاڑی سلسلے یا مغلیہ دور کا شاہی قلعہ اور شالیمار باغ، ہر جگہ پر آپ مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے حُسن کو محسوس کریں گے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ ٹورسٹ پاکستان کے سیاحتی مقامات کی جستجو میں پاکستان کا رُخ کرتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ پاکستان کی موجودہ گورنمنٹ اس سیکٹر کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتی ہے ۔ سیاحت کے کاروبار کے فروغ کے لیے ابھی بہت سے مثبت اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے لیے گورنمنٹ کو پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ ایسے بہت سے عناصر جو اس انڈسٹری کو تباہ کر رہے ہیں اُن کے اندر بہتری لانی ہو گی۔

جیسا کہ غیر ملکی معیار کے مطابق انفرا سٹریکچر کی کمی، ایئر لائن انڈسٹری کا زوال، افراطِ زر، مہنگائی کا طوفان ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کی نا اہلی اور سیکورٹی کے خدشات پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کو بہت متاثر کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی موجودہ گورنمنٹ پاکستان کی معاشی حالت کو واقعی بہتر بنانا چاہتی ہے تو انہیں ٹورازم انڈسٹری کی بہتری پر خاص توجہ دینی ہو گی۔

گورنمنٹ کو چاہیئے کہ ملکی و غیر ملکی سرمایا کاری کو فروغ دیں اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے سرمایہ کاری کریں جن میں سڑکیں، ٹرانسپورٹ، ایئر لائن انڈسٹری کے ساتھ ساتھ نئے ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور ریزورٹس کی تعمیر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ جس سے نا صرف پاکستان کی انکم میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان میں روزگار کے اور مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے مثبت اقدامات سے ہم دنیا کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک نیا اور روشن چہرہ دکھانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

خیبرپختونخوا کے کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد خان نے کہا کہ تاریخی پروگرام کے تحت سیاحتی علاقوں میں مقامی رہائشیوں کو کم از کم دو کمروں پر مشتمل مکانات کی تعمیر یا تزئین و آرائش کے لیے بینک آف خیبر سے 30 لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔اس منصوبے کے لیے حکومت کی توجہ کے علاقوں میں قدرتی مقامات جیسے کالام سوات، اپر دیر میں کمراٹ ویلی، لوئر دیر میں لارام ٹاپ، اپر چترال، کوور چترال، گلیات ایبٹ آباد، اور اپر کاگن مانسہرہ شامل ہیں۔

یہ مقامات قدرتی حسن سے مالا مال ہیں۔سعد خان نے بتایا کہ اس قرضہ حسنہ (بلاسود قرض) اسکیم کے مستفید ہونے والوں کو ان علاقوں کے 20 سے 55 سال کی عمر کے مستقل رہائشی ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین کاروباریوں اور تعلیم یافتہ خاندانوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ حکومت نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ اس اسکیم کے تحت تعمیر یا تزئین و آرائش شدہ کمروں کو کم از کم 10 سال کی مدت کے لیے خصوصی طور پر سیاحت سے متعلق رہائش کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ اقتصادیات کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ذلاکت ملک نے کہا کہ میزبان سیاحتی منصوبہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور دیہی معیشت کی بحالی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی قابل فخر سیاحتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں ٹریول اینڈ ٹورازم مارکیٹ بڑھ رہی ہے اور اس میں 6.75 فیصد (2025-2029) کے اضافے کا امکان ہے ۔

ڈاکٹر ذلاکت ملک نے کہا کہ سارک ممالک سیاحت سے لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں حالانکہ پاکستان کے مقابلے میں سیاحت کی محدود صلاحیت ہے اور انہوں نے’’کے-2‘‘کے گھر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال کی تجویز دی۔ کے پی کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ لارم ٹاپ اور شاہی لوئر دیر، کمراٹ دیر اپر، بروغل اور سورلاسپور میں چترال اپر، شانگلہ، سمانہ ہری پور، سلاتھارن سوات اور کالام میں نئے کیمپنگ پوڈز کا قائم عمل میں لایا جا رہا ہے۔

کے پی حکومت نے کاغان، چترال اور سوات میں تین نئے سکی ریزورٹس کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ بٹاکنڈی-للازار چیئر لفٹ اور دیر چترال میں مجوزہ کیبل کار منصوبے کی تکمیل سے یہ خطہ سیاحت کا مرکز بن جائے گا۔سجاکوٹ، نوری، چجیاں ہری پور، جاروگو سوات، لانچھ دیر، امبریلا ایبٹ آباد اور چار مربوط ٹورازم زونز (آئی ٹی زیڈ) کے آبشاروں کی ترقی سے پاکستان کے سیاحتی سرمائے میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اس اہم اقدام سے مقامی خاندانوں کے لیے پائیدار آمدنی کے مواقع پیدا ہوں گے، ماحولیاتی سیاحت کو فروغ ملے گا، اور خیبر پختونخواہ کے دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا جائے گا۔
مہنگائی کا طوفان سے متعلق تازہ ترین معلومات