تعزیر
تَعْزِیر: کسی گناہ پر بغرض تادیب (تنبیہ) جو سزا دی جاتی ہے اس کو تعزیر کہتے ہیں۔
شرعی قانون نے " جرم و سزاء " کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس میں سزائیں تین طرح کی ہیں۔
غیر متعین سزا
[ترمیم]وہ سزائیں جنہیں کتاب و سنت نے متعین تو نہیں کیا مگر جن برے کاموں کی یہ سزائیں ہیں ان کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا ہے اور سزا کے تعین کا مسئلہ مسلم حاکم یا حکومت کے سپرد کر دیا ہے کہ وہ موقع ومحل اور ضرورت کے مطابق سزا خود متعین کریں گویا اس قسم کی سزاؤں میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرہ کے اندر رہ کر جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے اس طرح کی سزا شریعت میں " تعزیر " کہلاتی ہے۔
سزا مقرر نہ کرنے کی وجہ
[ترمیم]شارع نے اس کے لیے کوئی مقدار معین نہیں کی ہے بلکہ اس کو قاضی کی رائے پر چھوڑا ہے جیسا موقع ہو اس کے مطابق عمل کرے۔ تعزیر کا اختیار صرف بادشاہ اسلام ہی کو نہیں بلکہ شوہر بی بی کو آقا غلام کو ماں باپ اپنی اولاد کو اُستاد شاگرد کو تعزیر کر سکتا ہے۔[1]
تعزیر کی صورتیں
[ترمیم]تعزیر کی بعض صورتیں یہ ہیں۔ قید کرنا، کوڑے مارنا، گوشمالی کرنا (بطور سزاکان مروڑنا، تنبیہ کرنا) ڈانٹنا، ترش روئی سے (سخت اور نفرت کے انداز سے ) اس کی طرف غصہ کی نظر کرنا۔[2]
حد اور تعزیر میں فرق
[ترمیم]حد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں " عقوبت " ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لیے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کر سکتا اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے اس وجہ سے کہ قاضی اس میں تصرف کر سکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کر سکتا ہے اور موقع ومحل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر وتبدل بھی کر سکتا ہے، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر و تحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا۔ چونکہ " قصاص " بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے اس لیے اس کو بھی " حد " نہیں کہا جاتا۔[3]